• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 176677

    عنوان: قراَت کا لغوی معنی کیا ہے؟

    سوال: قراَت کے لغوی معنی کیا ہے؟ جماعت کی نماز سے متعلق امام کی قراَت کے بارے میں احادیث میں جو قراَت کا لفظ آیا ہے، کیا وہ صرف جہری نمازوں کے لیے ہے؟ کیا سری نماز میں امام کے قرآن پڑھنے کو بھی قراء ت کہا جاتا ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 176677

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:630-541/L=7/1441

    قراء ت کے لغوی معنی پڑھنے کے ہیں؛ خواہ جہرا ہو یا سرا. لہذا سری نمازوں میں امام کا قرآن پڑھنا بھی قراء ت ہے.اور“من کان لہ إمام فقراء ة الإمام لہ قراء ة ”یعنی جو کسی امام کے پیچھے نماز پڑھتا ہو، اس کے لیے امام کی قراء ت ہی اس کی قراء ت ہے،یہ حدیث جہری اور سری دونوں نمازوں کو شامل ہے۔

    عن جابر عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”کل من کان لہ إمام فقراء تہ لہ قراء ة“ رواہ أبو حنیفة فی کتاب الآثار (86)وابن أبی شیبة (3802) وأحمد بن منیع( کما فی إتحاف الخیرة 2/161)وقال ابن الہمام فی فتح القدیر: سندہ صحیح. وقال البوصیری فی إتحاف الخیرة بعد ذکر حدیث جابر رضی اللہ عنہ من طریقین: إسناد حدیث جابر الأول صحیح علی شرط الشیخین، والثانی علی شرط مسلم وقال العلامة أنور شاہ الکشمیری فی العرف الشذی: سندہ قوی. (فتح القدیر 1/338وإتحاف الخیرة المہرة 2/168 والعرف الشذی 1/303) وفی الموسوعة الفقہیة الکویتیہ: القراء ة في اللغة: التلاوة، یقال قرأ الکتاب قراء ة وقرآنا: تتبع کلماتہ نظرا، نطق بہا أو لم ینطق․․․․ والقراء ة اصطلاحا: ہي تصحیح الحروف بلسانہ بحیث یسمع نفسہ، وفي قول وإن لم یسمع نفسہ (الموسوعة الفقہیة الکویتیة 33/46)

    نوٹ: منشاسوال اگر کچھ اور ہو تو اس کی وضاحت کرکے سوال کیا جائے پھر ان شاء اللہ جواب دیا جائے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند