• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 174940

    عنوان: بود وباش میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم كی اطاعت

    سوال: ہمارے نبی مُحَمَّد ﷺ اور صحابا نے جب نماز قایم کی تب اس زمانے میں ان کے پاس اے سی (A.C) تھا نا پنکھا تھا اور نا ھی فرش پر بچھا ہوا نرم اور عمدا قالین تھا جیسا کہ یہ سب آج ہر مسجد میں موجود ہے، درج ذیل سوالوں پر آپ سے رہنائی کی درخواست ہے۔ ۱۔ جیسا کے قران میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو تم اپنے رسول کی اطاعت کرو، اللہ ? کے اس حکم کی بنا پر اور اپنے نبی حضرت مُحَمَّد ﷺ کے ساتھ وفاداری اور اپ مُحَمَّد ﷺ کی اطاعت کی نیت سے نماز کے اوقات میں اگر میں اپنے نفس کو آرام دینے والی یہ ساری چیزیں جیسے ایر کنڈیشنر (A.C)، پنکھا، اور فرش پر بچھا ہوا نرم اور عمدا قالین (CARPET) کے استعمال کو ترک کردو اور فرض نماز کے علاوہ باقی ساری نمازیں جیسے سنن اور نوافل مسجد کے کسی ایسے خارجی حصے میں ادا کرو جو حصہ پاک بھی ہو اور اس جگہ نفس کو آرام دلانے والی کوئی چیز موجود نا ہو تو یہ بتائیں کہ شریعت میں نماز کے وقت اپنے نفس کو آرام دلانے والے ان تمام سامان کے استعمال کو ترک کرکے اللہ ? کی عبادت کرنے کا یہ عمل کیسا ہوگا؟ ۲۔ اگر میں نماز کے علاوہ دیگر عبادت بھی جیسے اللہ ? کا ذکر اور قرآن کی تلاوت کے وقت بھی ان ساری چیزو ں کے استعمال کو محض اس لیے ترک کردو ں کہ یہ سب میرے نبی کو اور صحابہ کو ان کے وقت میں میسر نہیں ہوا تو یہ بتائیں کہ اپنے نبی مُحَمَّد ﷺ اور صحابہ کے ساتھ وفاداری نبھانے کی نیت سے ان آرام دینے والے سارے سامان کو ترک کرنے کا عمل کیسا ہوگا چاہے اس عمل میں کچھ دیر تک گرمی کی شددت برداشت کرنی پڑے؟ ۳۔ زیادہ سے زیادہ اللہ کے حکم اور نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے نفس کی اطاعت اور خواہشات کو ترک کرکے کیا میں اپنے رب سے یہ امید رکھ سکتا ہوں کہ اللہ حشر کے میدان میں میرے درجے بلند کرے اور مجھے صحابہ کے درجے میں شمار کرے گا؟ اللہ آپ کو جزاے خیر عطا فرمائے، تسلی بخش جواب کا انتظار رہے گا۔

    جواب نمبر: 174940

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 385-55T/B=05/1441

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے دَور میں لوگ پیدل یا اونٹ پر سفر کرتے تھے اب آجکل کاروں، بسوں، ٹرینوں اور ہوئی جہازوں سے سفر کرنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بغیر چھلنی میں چھنا ہوا جو کا آٹا کھاتے تھے، آج ہم گیہوں اور میدہ کی روٹی کھا رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سات ہاتھ کی زمین میں پھوس کے مکان میں رہتے تھے۔ آج لوگ بقدر حویلی کے زمین لے کر عالیشان کوٹھیاں بنواتے ہیں لیکن اللہ نے جب فتوحات کا دروازہ کھولا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات پر وسعت فرمائی ایک ایک سال کا ایڈوانس انتظام فرما دیا۔ صحابہ کرام کو بھی نوازا حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں ابوہریرہ کو دیکھو کہ اسے کھانے کو نہیں ملتا تھا تو بھوک کی وجہ سے پاگلوں کی طرح راستہ میں پڑا رہتا تھا۔ آج ابوہریرہ کا یہ حال ہے کہ کتان کے رومال میں اپنی ناک صاف کر رہا ہے۔ غرض قرآن میں نئی سواریوں کو اختیار کرنے نئی ایجادات سے فائدہ اٹھانے کا بھی ذکر ملتا ہے۔

    اب دو چیزیں ہیں ایک تو عزیمت یعنی اعلیٰ درجہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح جو کچھ کیا ہے ایسا ہی ہم بھی کریں۔ ایسا کوئی قوی الایمان ہے اسے کوئی نقصان اور تکلیف نہ ہوگی تو اس کے لئے اعلیٰ درجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے اور اگر ایسا کوئی قوی الایمان نہیں ہے تو ہمیں رخصت کے درجہ پر عمل کر لینا ہی کافی ہے۔ حالات کے بدلنے سے مسائل اور احکام بھی بدلتے ہیں۔ حرمین شریفین کی عمارت پہلے بالکل سادہ اب نہایت پختہ مضبوط اور خوبصورت بنا دی گئی پہلے قالین نہ تھے اب قالین بھی بچھا دئے گئے پہلے اے سی نہ تھی اب اے سی بھی لگا دی گئی۔ آپ کے سامنے ہم نے دونوں پہلو رکھ دیئے، ان شاء اللہ آپ کو صحیح رہنمائی ملے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند