متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 173261
جواب نمبر: 173261
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:58-23T/L=3/1441
(۱)حج سے واپسی پر حجاج کرام کا حدودِ شرع میں رہتے ہوئے ان کااستقبال کرناان سے ملاقات کرکے دعا کی درخواست کرنا جائز بلکہ مندوب ومستحسن ہے ؛البتہ آج کل استقبال کا جو طریقہ رائج ہے اس میں ریاء ونمود کا پہلو غالب ہوتا ہے اور بہت سی چیزوں میں غیروں کی مشابہت بھی لازم آتی ہے، ایسے امور سے احترازضروری ہے۔
(۲)سوال میں مذکور جملہ ”ان کا استقبال ایسے کیا جائے الخ“سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ خارجِ شہر نکل کر ان کا استقبال کیا جائے (جیسا کہ اہلِ مدینہ نے کیا تھا )، ان سے دعاؤں کی درخواست کی جائے اور یہ بھی ہوسکتی ہے اس امرِمیں اہلِ مدینہ کا اتباع کیا جائے جس میں کوئی حرج نہیں، فقہاء نے صراحت کہ ہے کہ اگر مومن کے کلام کو اچھے محمل پر محمول کرنا ممکن ہو تو اسی پر محمول کرنا چاہیے ۔
(۳)جس طرح انبیاء رہبرِ انسانیت ہوتے ہیں اسی طرح امت کی فکر کرنے والا عالم بھی رہبر ہوتاہے؛بنابریں اگر کسی دیندار عالم اور مفکر اسلام ومسلمین کو رہبرِ انسانیت سے خطاب کیا جائے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے ۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال: لما قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم مکة، استقبلہ أغیلمة بنی عبد المطلب، فحمل واحدا بین یدیہ، والآخر خلفہ(صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5965، باب الثلاثة علی الدابة) عن الزہری، قال: قال السائب بن یزید رضی اللہ عنہ: ذہبنا نتلقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع الصبیان إلی ثنیة الوداع(صحیح البخاری رقم: 3083، باب استقبال الغزاة)وفی عمدة القاری: قال صاحب (التوضیح) . وفیہ: تلقی القادمین من الحج إکراما لہم وتعظیما لأنہ صلی اللہ علیہ وسلم لم ینکر تلقیہم، بل سر بہ لحملہ منہم بین یدیہ وخلفہ. انتہی. قلت: ہذا أیضا ذہل مثل ذاک القائل المذکور عن قریب، وذلک أنہ لیس فیہ تلقی القادمین من الحج، بل فیہ تلقی القادمین للحج، کما ذکرناہ، نعم، یمکن أن یؤخذ منہ تلقی القادمین من الحج، وکذلک فی معناہ من قدم من جہاد أو سفر، لأن فی ذلک تأنیسا لہم وتطییبا لقلوبہم.(عمدة القاری شرح صحیح البخاری 10/ 133، الناشر: دار إحیاء التراث العربی - بیروت)وفی شرح ابن بطال: قال المہلب: التلقی للمسافرین والقادمین من الجہاد والحج بالبشر والسرور أمر معروف، ووجہ من وجوہ البر.(شرح صحیح البخاری لابن بطال 5/ 241، دار النشر: مکتبة الرشد - السعودیة، الریاض) فاللقب إن کان من مستحب الألقاب، ومستحسنہا، ولیس فیہ الإطراء المنہی عنہ شرعا فہو مستحب بشرط أن یکون الملقب راضیا عنہ.(الموسوعة الفقہیة الکویتیة 35/ 289) وفی المنتقی:قال مالک ولا ینبغی أن یتسمی الرجل بیاسین ولا بمہدی ولا بجبریل قیل لہ فالہادی قال ہذا أقرب؛ لأن الہادی ہادی الطریق.(المنتقی شرح الموطإ 7/ 296، الناشر: مطبعة السعادة - بجوار محافظة مصر)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند