متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 172807
جواب نمبر: 172807
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1143-208T/sn=12/1440
(الف) مذکور فی السوال رشتے دار کے ساتھ میل جول رکھنے سے اگر آپ لوگوں کو ضرر کا اندیشہ ہو، یا یہ امید ہو کہ آپ لوگوں کے میل جول نہ رکھنے کی وجہ سے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف آمادہ ہوگاتو صورت مسئولہ میں اس شخص سے دوری بنائے رکھنے کی گنجائش ہے؛ لیکن بہر حال کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تعلقات بحال ہوجائیں، اور آپسی دوریاں کم ہوں۔نبیٴ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع تعلق کرنے والے سے رشتہ جوڑنے اور محروم کرنے والے کو عطا کرنے اور ظلم کرنے والے کو معاف کر دینے کی تعلیم دی ہے۔
ثم المراد حرمة الہجران إذا کان الباعث علیہ وقوع تقصیر فی حقوق الصحبة والأخوة وآداب العشرة وذلک أیضا بین الأجانب وأما بین الأہل فیجوز إلی أکثر للتأدیب فقد ہجر رسول اللہ - صلی اللہ تعالی علیہ وسلم - نساء ہ شہرا وکذا إذا کان الباعث أمرا دینیا فلیہجرہ حتی ینزع من فعلہ وعقدہ ذلک فقد أذن رسول اللہ - صلی اللہ تعالی علیہ وسلم - فی ہجران الثلاثة الذین تخلفوا خمسین لیلة حتی صحت توبتہم عند اللہ، قالوا وإذا خاف من مکالمة أحد ومواصلتہ ما یفسد علیہ دینہ أو یدخل علیہ مضرة فی دنیاہ یجوز لہ مجانبتہ والحذر منہ فرب ہجر جمیل خیر من مخالطة مؤذیة. (حاشیة السندی علی سنن ابن ماجہ 1/ 23، رقم: 46) عن عقبة بن عامر، قال: لقیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال لی: " یا عقبة بن عامر، صل من قطعک، وأعط من حرمک، واعف عمن ظلمک "(مسند أحمد ط: الرسالة ، رقم: 17462)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند