• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 171888

    عنوان: کیا اپنے مرشد کے لیے فداک امی وابی کہنا جائز ہے؟

    سوال: کیا اپنے مرشد کے لیے فداک امی وابی کہنا جائز ہے؟

    جواب نمبر: 171888

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1347-1151/L=11/1440

    اپنے پیر ومرشد کو فداک أبی وأمی کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے ،خود رسو ل اللہﷺ سے بعض صحابہ کرام کو اس طرح کے الفاظ کہنا ثابت ہے ؛چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کسی آدمی پر ماں باپ قربان کرتے نہیں دیکھا سوائے حضرت سعد بن وقاصکے میں نے جنگ احد میں رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا :”ارم فداک أبی وأمی“ تیرچلاؤ میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں ،اسی طرح حضرت ابن عباسکا حضرت علی کو اس طرح کے الفاظ کہنا ثابت ہے ۔

    عبد اللہ بن شداد، قال سمعت علیا رضی اللہ عنہ، یقول: ما رأیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یفدی رجلا بعد سعد سمعتہ یقول: ارم فداک أبی وأمی( صحیح البخاری،رقم الحدیث، 2905، باب المجن ومن یترس بترس صاحبہ) عن ابن عباس، قال: دخل علی علی بیتی، فدعا بوضوء، فجئنابقعب یأخذ المد أو قریبہ، حتی وضع بین یدیہ، وقد بال، فقال: یا ابن عباس، ألا أتوضأ لک وضوء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قلت: بلی، فداک أبی وأمی. (مسند أحمد ط الرسالة 2/ 59، الناشر: مؤسسة الرسالة)وفی حاشیة النووی:جمع لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أبویہ یوم أحد فقال ارم فداک أبی وأمی فیہ جواز التفدیة بالأبوین وبہ قال جماہیر العلماء وکرہہ عمر بن الخطاب والحسن البصری رضی اللہ عنہما وکرہہ بعضہم فی التفدیة بالمسلم من أبویہ والصحیح الجواز مطلقا لأنہ لیس فیہ حقیقة فداء وإنما ہو کلام وألطاف وإعلام بمحبتہ لہ ومنزلتہ وقد وردت الأحادیث الصحیحة بالتفدیة مطلقا.(شرح النووی علی مسلم ۲/ ۲۸۰)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند