• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 170183

    عنوان: بینک کی آمدنی سے جو تحفہ وغیرہ دیا جائے اس کا حکم

    سوال: میں آپ سے بینک کی آمدنی کے حوالے سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں۔ میرے مرحوم والد صاحب شدید علیل ہونے کے باعث ہماری کفالت کرنے سے قاصر تھے ایسے حالات میں ہمارے سگے چچا نے بچپن سے اب تک ہماری کفالت کی۔ میری شادی کے اخراجات بھی انہی نے اٹھائے میرے چچا بیرونے ملک ایک بینک میں ملازمت کرتے ہیں۔ شادی کے موقع پہ دیے گے جہیز کے زیورات میرے پاس موجود ہیں،یہ زیورات بینک کی آمدنی سے خریدے گئے اور انکو استعمال کرنے میں مجھے شکوک و شبہات ہیں، جبکہ اب میں چچاکے زیرکفالت نہیں ایسی صورت میں مجھے ان زیورات کا کیا کرنا چاہیئے ؟ اسلام کی رو سے اس مسلے میں میری رہنمائی کریں۔ شکریہ

    جواب نمبر: 170183

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:940-863/sn=1/1441

     بینک میں کوئی ایسی ملازمت جس میں سودی لکھا پڑھی یا سودی لین دین کی تکمیل وتائید وغیرہ کرنی یڑتی ہو شرعا جائز نہیں ہے او ر جس شخص کی آمدنی کا غالب حصہ اسی طرح کی ملازمت سے حاصل شدہ ہو اس کا دیا ہوا ہدیہ تحفہ وغیرہ قبول کرنا جائز نہیں ہوتا، اگر آپ کے چچا کی ملازمت مذکورہ بالا نوعیت کی تھی تو آپ کو ان سے شادی وغیرہ کے اخراجات نہ لینا چاہیے تھا، بہر حال اب زیورات کا حکم یہ ہے کہ زیورات جس کو دیے گئے ہیں اسے چاہیے کہ وہ زیورات دینے والے کو لوٹا دے ، اپنے استعمال میں نہ لائے الا یہ کہ دینے والا یہ صراحت کردے کہ میں نے قرض لے کر یا اپنی فلاں حلال آمدنی سے یہ زیورات دیے تھے تو پھر انھیں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

    آکل الربا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أوأضافہ وغالب مالہ حرام لایقبل، ولا یأکل ما لم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالا لا بأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا، کذا فی الملتقط. (الفتاوی الہندیة 5/ 343، ط: زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند