• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 168754

    عنوان: گم شدہ چپل کی جگہ دوسری چپل استعمال کرنے کا حکم

    سوال: زید کی چپل مسجد سے غائب ہو گئی؛ اب تمام لوگوں کے جانے کے بعد جو چپل رکھی رہ گیں اور دو تین نمازوں کے بعد بھی ان چپلوں کو کوئی لینے نہیں آیا تو کیا زید ان چپلوں کو عارضی یا مستقل طور پر استعمال کر سکتا ہے ؟ یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید یہ تبدیل شدہ چپل ہے -

    جواب نمبر: 168754

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:564-568/N=7/1440

    اگر قرائن کی روشنی میں زید کا غالب گمان یہ ہو کہ مسجد میں چھوڑی ہوئی چپلیں، اُسی شخص کی ہیں، جو زید کی چپلیں پہن گیا ہے اور وہ جان بوجھ کر پہن گیا ہے تو ایسی صورت میں زید وہ چپلیں استعمال کرسکتا ہے(کفایت المفتی،۹: ۴۳۴، مطبوعہ: دار الاشاعت کراچی)؛ البتہ اگر ان کی مالیت زید کی اپنی چپلوں سے زیادہ ہو تو زائد مالیت کے بہ قدر پیسے کسی غریب کو دیدے ۔ اور اگر زید کا غالب گمان یہ ہو کہ غلطی سے چپلیں بدلی ہیں یا موجودہ چپلیں کسی اور کی ہیں تو ایسی صورت میں انتظار کیا جائے، اگر مالک مل جائے تو اسے اس کی چپلیں دیدی جائیں اوراس سے اپنی چپلیں لے لی جائیں ۔ اور اگر مالک نہ ملے تو کسی غریب کو دیدی جائیں ۔

    وفي التتاخانیة:…وفي الخانیة: وضعت ملاء تہا ووضعت الأخری ملاء تہا ثم أخذت الأولی ملاء ة الثانیة لا ینبغی للثانیة الانتفاع بملاء ة الأولی، فإن أرادت ذلک قالوا ینبغی أن تتصدق بہا علی بنتہا الفقیرة بنیة کون الثواب لصاحبتہا إن رضیت، ثم تستوہب الملاء ة من البنت؛ لأنہا بمنزلة اللقطة۔ وکذلک الجواب فی المکعب إذا سرق اہ، وقیدہ بعضہم بأن یکون المکعب الثانی کالأول أو أجود، فلو دونہ لہ الانتفاع بہ بدون ہذا التکلف؛ لأن أخذ الأجود وترک الأدون دلیل الرضا بالانتفاع بہ کذا فی الظہیریة، وفیہ مخالفة للقطة من جہة جواز التصدق قبل التعریف وکأنہ للضرور اہ ملخصا.

    قلت: ما ذکر من التفصیل بین الأدون وغیرہ إنما یظہر في المکعب المسروق، وعلیہ لا یحتاج إلی تعریف؛ لأن صاحب الأدون معرض عنہ قصدا فہو بمنزلة الدابة المہزولة التی ترکہا صاحبہا عمدا؛ بل بمنزلة إلقا النوی وقشور الرمان،. أما لو أخذ مکعب غیرہ وترک مکعبہ غلطا لظلمة و نحوہا ویعلم ذلک بالقرائن فہو فی حکم اللقطة لا بد من السوٴال عن صاحبہ بلا فرق بین أجود وأدون، وکذا لو اشتبہ کونہ غلطا و عمدا لعدم دلیل الإعراض، ہذا ما ظہر لی فتأملہ (رد المحتار، کتاب اللقطة، ۶: ۴۴۶، ۴۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند