• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 168158

    عنوان: کسی پڑوسی کی مددکرنے کی حد ہے؟

    سوال: کسی مسلمان کی دوسرے پڑوسی مسلمان کی مددکرنے کی حد کیا ہونی چاہیے ۔ جبکہ پڑوسی ایسا کوئی کام کرنا چا ہے ۔ جس سے خطرہ ہو۔ مثلا وہ با ہر ملک میں دوسرے مسلمان کے نا م پر گاڑی خریدنا یا ایجار پر لے نا چا ہے ۔ یا بغیر قا نونی اجازت کہ ایک مسلمان کی گا ڑی استعمال کر نا چاہے ۔ واضح ہو کہ اگر گا ڑی مالک کے علاوہ کو ئی اور شخص چلائے گا تو حکومت سے منظور شدہ تامین بندے کو نہیں ملے گی اور بہت حرج ہو سکتا ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کس حد تک مدد کریں اور منع کریں تو کیسے منع کریں کہ اس بندے کو بات سمجھ آجا ئے اور اس کا دل بھی نہ دکھے اور قطع رحمی بھی نہ ہو۔ رہنمائی فرمائیں۔

    جواب نمبر: 168158

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:438-387/sd=6/1440

    احادیث میں پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی بہت تاکید آئی ہے ، اگر وہ ضرورت مند ہو، تو حسب استطاعت اُس کا تعاون کرنا چاہیے ، خوشی اور غم میں شریک ہونا چاہیے ، ہر طرح کی اذیت و تکلیف پہنچانے سے احتراز کرنا چاہیے ، خیرخواہی اور ہمدردی کا معاملہ کرنا چاہیے ، اگر پڑوسی کسی ایسے عمل میں ملوث ہو جس سے اُس کے دنیاوی یا اخروی نقصان کا اندیشہ ہو اور اُس کا یہ عمل معروف ہو، تو حکمت اور حسن تدبیر سے اُس کو توجہ دلادینی چاہیے ، یہ بھی خیر خواہی کا تقاضا ہے ؛ باقی پڑوسی کے دنیاوی معاملات کی ا زخود تحقیق وغیرہ میں پڑنا دانشمندی کے خلاف ہے ، اس میں بسا اوقات فتنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند