متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 167516
جواب نمبر: 167516
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:378-89T/sn=7/1440
آپ نے جو پہلا اعتراض نقل کیاہے اِس سلسلے میں عرض ہے کہ صاحبِ ہدایہ کا اشارہ مطلق حکم کی طرف ہے یعنی بیر کے پتوں میں گرم کئے پانی سے جو بیری کے پتوں کے پانی سے نہلانا سمجھ میں آرہا ہے اس کے بارے میں صاحب ہدایہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہ مضمون حدیث میں آیا ہے اور بلا شبہ یہ مضمون حدیث شریف میں آیا ہے، جس کا آپ نے خود بھی ذکر کیا ہے؛باقی اگر یہ بھی مان لیا جائے سابقہ مکمل بات کی طرف ”بذلک“سے اشارہ کرنا مقصود ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ در اصل صاحبِ ہدایہ کا مقصد حدیث کا ایک محمل بیان کرنا ہے؛ کیونکہ بیری کے پتوں کے پانی سے مردے کو نہلانے کا مقصد تنظیف ہے اور پانی کو گرم کرنا اس میں ممد ومعاون ہے؛ بلکہ گرم کئے بغیر پانی میں پتوں کا اثر ہی نہیں آئے گا۔ جب گرم پانی میں بیری کے پتے ڈال کر نہلانا حدیث کا محمل ٹھہرا تو اسے ثابت بالسنة بھی کہا جا سکتا ہے۔
دوسرے اعتراض کے سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ان الفاظ کے ساتھ کوئی قولی حدیث تونہیں ملتی ؛ لیکن اس مضمون کی دوسری روایت موجود ہے ، چناچہ علامہ عینی نے بنایہ میں دوسری حدیث نقل بھی کی ہیں ۔(دیکھیں: بنایہ2/27،دارالکتب العلمیة ، بیروت) صاحبِ ہدایہ نے گویا روایت بالمعنی کرتے ہوئے مجموعہ احادیث کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے چونکہ فقہا کا مقصد الفاظِ حدث کی روایت نہیں؛ بلکہ معانی کوبیان کرنا ہوتا ہے؛ اس لئے کتب ِفقہ میں بہ کثرت روایت بالمعنی ملتی ہے ۔ اس طرح کے دیگر اعتراضات کا جواب بھی اسی وصول پر دیا جا سکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند