• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 165945

    عنوان: كسی كافر كو كافر كہنے كا حكم؟

    سوال: عنوان: ایسا سچ اور عقیدہ رکھنا کہ کسی کافر کو کافر نہ کہو کیونکہ اگر وہ مرنے سے پہلے کلمہ پڑھ کے ایمان لالے تو؟ لیکن ساتھ میں یہ بھی سوچنا کہ ان کو دل سے مسلمان کہا او رمانا نہیں جاسکتا یہ پکے کافر ہیں، یہ سوچ اور عقیدہ کفر ہے؟ اور ایسی سوچ رکہنے والا کافر ہے؟ دائر اسلام سے خارج ہے؟ حضرت، مفتی صاحب! یہ سوچ ہمارے برصغیر (یعنی ہندوپاک) میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے، خاص طور سے دیوبندی اور اہل حدیث کی جاہل عوام میں کہ کسی کافر کو بھی کافر نہ کہو کیونکہ اگر وہ مرنے سے پہلے کلمہ پڑھ کے ایمان لالے تو ؟ لیکن یہ لوگ ساتھ میں یہ بھی سوچتے ہیں کہ ان کو دل سے مسلمان یا غیر کافر کہا اور بولا نہیں جاسکتا، یہ پکے کافر ہیں اور مرنے سے پہلے ایمان لائے تو ہمیشہ دوزخ کی آگ میں جلیں گے، لیکن اگر مرنے سے پہلے ایمان لائے تو موٴمن ہے اور جنتی ہے، یہ سچی سوچ رکھنے کے باوجود بھی یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو کافر نہ کہو کیونکہ مرنے سے پہلے کلمہ پڑھ لے تو؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ کافر کو کافر نہ کہو یہ مطلب سے نہیں کہتے کہ یہ مسلم ہیں، مومن ہیں یا پکے مسلمان ہیں، بلکہ یہ مطلب سے کہتے کہیں کہ اگر مرنے سے پہلے ایمان لالے تو؟ اور حدیث ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہوگے اور اس میں کفر نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا یہ صحیح حدیث ہے لیکن میں نے یہ فتوی بھی پڑھا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنے سے کہنے والا کافر نہیں ہوگا جب تک وہ اس کو حلال قرار نہ کرے جیسے خوارج کرے تھے۔ اور امام نووی نے بھی یہی کہا ہے ان کی شرح صحیح مسلم میں یہ لکھا ہے، یہاں پر اصلی مسلمان کو کافر کہا گیا ہے پھر بھی وہ شخص کافر نہیں ہوا۔ میں نے جو سوال پوچھا ہے اس پر کیا حکم ہوگا کہ کافر کو بھی کافر نہ کہو کیونکہ اگر وہ مرنے سے پہلے کلمہ پڑھ کے ایمان لالے تو اس کے بارے میں تفصیل میں وضاحت کریں، ایسا سوچنا کہ کسی کافر کو کافر نہ کہو کیونکہ اگر وہ مرنے سے پہلے کلمہ پڑھ کے ایمان لاسکتا ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی سوچنا کہ ان کو دل سے مسلمان یا غیرکافر کہا اور مانا نہیں جاسکتا ، یہ پکے کافر ہیں اور مرنے سے پہلے ایمان نہ لائے تو ہمیشہ دوزخ کی آگ میں جلیں گے لیکن اگر مرنے سے پہلے ایمان لائے تو موٴمن مسلمان ہے اور جنتی ہے۔ یہ سوچ اور عقیدہ کفرہے؟ اور ایسی سوچ رکھنے والا کافر ہے؟ دائر اسلام سے خارج ہے؟ اگر یہ واقعی میں کفر ہے تو یہاں پر زیادہ تر لوگوں میں یہی سوچ ہے کیا یہ سب کافر ہوں گے جو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے؟ برائے مہربانی تفصیل سے قرآن و حدیث اور علماء دیوبند کی سوچ اور فتوی اور ایک درخواست ہے کہ ہو سکے تو غیر مقلد اہل حدیث کی بھی سوچ اور فتوں سے بات کی وضاحت کریں کیونکہ یہ سوچ صرف جاہل دیوبند عوام میں نہیں بلکہ جاہل اہل حدیث عوام میں بھی اور غیرمقلدین بھلے گمراہ ہیں لیکن کافر نہیں ہیں، اس لئے میرے سوال کا پورا جواب دیجئے گا، میں بڑا پریشان ہوں اس بارے میں ۔ برائے مہربانی تفصیل سے بات واضح کریں ۔ جزاک اللہ

    جواب نمبر: 165945

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 211-261/L=3/1440

    اگر آپ کا یہ نظریہ ہے کہ اسلام کافر کو کافر کہنے سے منع کرتا ہے اور کافر کو کافر نہیں کہہ سکتے خواہ وہ قرآن کا منکر ہو یا رسالت کا تو آپ کا یہ نظریہ درست نہیں قرآن و حدیث کے خلاف ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں جابجا اہل کفر پر کافر اور کفار کا اطلاق آیا ہے البتہ اگر کسی خاص موقع پر کافر کو کافر کہنے میں کسی فتنے یا دینی نقصان یا ایذاء کا اندیشہ ہوتو پھر مصلحتا کافر کو صراحتا کافر نہ کہا جائے لیکن اس سے کفر کی نفی بھی نہ کی جائے جہاں تک مسئلہ ہے کافروں کے بارے میں اس بات کا عقیدہ رکھنے کا کہ یہ کافر ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوگا آدمی فی الحال کا مکلف ہے فی المآل آئندہ کا نہیں ورنہ مسلمان کے بارے میں بھی یہ احتمال نکل سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ آئندہ کافر ہو جائے لہٰذا اس کو بھی مسلمان کہنا درست نہ ہوگا۔ قل یا أیہا الکافرون لا أعبد ما تعبدون (القرآن) لو قال لیہودی أو مجوسي یا کافر یأ ثم إن شق علیہ کذا فی القنیة (فتاوی ہندیہ: ۵/۴۰۲، ط: اتحاد دیوبند) وکذلک انعقد إجماعہم علی أن مخالفة السمع الضروری کفر وخروج عن الاسلام (اکفار الملحدین: ۱۲۹، ط: دارالبشائر الاسلامیہ) أن کل ما یکرہہ الانسان إذا نودی بہ فلا یجوز لأجل الأدبة (تفسیر قرطبی: ۱۹/۳۹۴، ط: موسسة الرسالة) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند