• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 165793

    عنوان: حضرت علی وغیرہ کو علیہ السلام کہنے کا حکم

    سوال: کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرات حسن و حسین رضی اللّٰہ عنہ یا اہل بیت حضرات کو علیہم السلام کہنا جائز ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 165793

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:91-311/N=4/1440

    علیہ السلام یا علیہم السلام کا لفظ انبیائے کرام اور فرشتوں کے ساتھ خاص ہے، کسی اور کے لیے اس کا استعمال جائز نہیں، پس حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسیناور حضرت فاطمہوغیرہ کے لیے علیہ السلام، علیہا السلام یا علیہم السلام کا استعمال نہیں کرسکتے، نیز ان حضرات کے ساتھ علیہ السلام وغیرہ کا استعمال شیعہ ورافض کا شعار اور طریقہ بھی ہے؛ اس لیے ان کی مشابہت کی وجہ سے بھی اس سے بچنا ضروری ہے۔

    وأمّا السّلام فنقل اللّقاني في شرح جوہرة التّوحید عن الإمام الجویني أنّہ في معنی الصّلاة، فلا یستعمل في الغائب ولا یفرد بہ غیر الأنبیاء، فلا یقال: عليٌّ علیہ السّلام، وسواء في ہذا الأحیاء والأموات الخ (رد المحتار، کتاب الخنثٰی، مسائل شتّٰی، ۱۰: ۴۰۰، ۴۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، والظّاہرأن العلّة في منع السّلام ما قالہ النّووي في علّة منع الصّلاة أن ذلک شعار أہل البدع، ولأنّ ذلک مخصوص في لسان السّلف بالأنبیاء علیہم الصّلاة والسّلام، کما أن قولنا عزّ وجلّ مخصوص باللّٰہ تعالٰی فلایقال: محمّد عزّ وجلّ وإن کان عزیزًا جلیلاً، ثمّ قال اللّقاني: وقال القاضي عیاض: الّذي ذہب إلیہ المحقِّقون وأمیلُ إلیہ ما قالہ مالک وسفیان واختارہ غیر واحد من الفقہاء والمتکلّمین أنّہ یجب تخصیص النّبيّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وسائرالأنبیاء بالصّلاة والتّسلیم، کما یختصّ اللّٰہ سبحانہ عندذکرہ بالتّقدیس والتّنزیہ، ویذکرمن سواہم بالغفران والرّضی کماقال اللّٰہ تعالٰی: ﴿رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ﴾، ﴿یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾، وأیضًا فہو أمر لم یکن معروفًا في الصّدر الأوّل، وإنّما أحدثہ الرّافضة في بعض الأیمّة، والتّشبّہ بأہل البدع منہيّ عنہ فتجب مخالفتہم اہ (المصدر السابق) ، عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم (سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشہرة، ۲: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱، ط: دار الفکر بیروت، مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، ص: ۳۷۵ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند) ، ”من تشبہ بقوم“أي: من شبہ نفسہ بالکفار مثلاً في اللباس وغیرہ أو بالفساق أو الفجار الخ (مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، ۸: ۲۲۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت) ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند