متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 162614
جواب نمبر: 162614
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:1488-1275/sd=1/1440
پہلے عالم سے بتائے بغیر دوسرے عالم سے تعویذ لینے میں شرعاً قباحت نہیں ہے؛ لیکن تعویذ کی حیثیت علاج کی ہوتی ہے اور علاج عموماً اسی وقت مفید ثابت ہوتا ہے جب کہ کسی ایک ڈاکٹر کی نگرانی میں کرایا جائے، ہاں اگر مرض میں افاقہ نہ ہو، تو جیسے دوسرے ڈاکٹر سے علاج کرایا جاتا ہے، اسی طرح دوسرے عامل سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے اگر واقعی تعویذ کی ضرورت ہو، تو کسی متعین ماہر فن معتبر عامل سے رجوع کرنا چاہیے اور بوقت ضرورت دوسرے عامل سے رجوع کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، باقی صبح وشام کی مسنون دعاوٴں کا اہتمام، گناہوں سے احتراز، فرائض وواجبات کی پابندی کرنی چاہیے، آج کل اس میں کوتاہی برتی جاتی ہے اور پریشانی کے وقت تعویذ وغیرہ کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند