• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 162614

    عنوان: پہلے عالم کو بتائے بغیر دوسرے عالم سے رجوع ہونا

    سوال: محترمی مجھے یہ جاننا تھا کہ پچھلے سال مئی کے مہینے میں میں نے اپنے آبائی گاوں سے کچھ دور ایک معتبر عالم سے رجوع ہوکر ان کو اپنی پریشانی بتا کر ان سے کچھ تعویز پائے تھے جو اب تک میرے پاس ہیں، امسال واپس اپنے گاؤں آیا ہوں، ارادہ تھا کہ رمضان سے پہلے ان کے پاس واپس جاؤں گا، لیکن ایک دوست کے اصرار پر ایک دوسرے عالم کے پاس چلا گیا اور ان کو اپنی پریشانی بتا کر آیا ہوں۔ برائے مہربانی یہ بتائے کہ اس طرح کیا پہلے عالم کو بتائے بغیر میرا دوسرے عالم کے پاس جانا درست ہے ؟ اگر نہیں تو اب مجھے کیا کرنا ہوگا۔ شکریہ

    جواب نمبر: 162614

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1488-1275/sd=1/1440

    پہلے عالم سے بتائے بغیر دوسرے عالم سے تعویذ لینے میں شرعاً قباحت نہیں ہے؛ لیکن تعویذ کی حیثیت علاج کی ہوتی ہے اور علاج عموماً اسی وقت مفید ثابت ہوتا ہے جب کہ کسی ایک ڈاکٹر کی نگرانی میں کرایا جائے، ہاں اگر مرض میں افاقہ نہ ہو، تو جیسے دوسرے ڈاکٹر سے علاج کرایا جاتا ہے، اسی طرح دوسرے عامل سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے؛ اس لیے اگر واقعی تعویذ کی ضرورت ہو، تو کسی متعین ماہر فن معتبر عامل سے رجوع کرنا چاہیے اور بوقت ضرورت دوسرے عامل سے رجوع کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، باقی صبح وشام کی مسنون دعاوٴں کا اہتمام، گناہوں سے احتراز، فرائض وواجبات کی پابندی کرنی چاہیے، آج کل اس میں کوتاہی برتی جاتی ہے اور پریشانی کے وقت تعویذ وغیرہ کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند