• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 160831

    عنوان: زوجین میں كون كس كی بات مانے؟

    سوال: جناب میرا سوال طویل ہے لیکن یہ کئی سالوں سے ہورہی پریشانی اور مستقبل کا حل ہے ہمارے ایک رشتہ دار میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک لڑکی جو کہ اپنے سسرال میں ہے اپنے شوہر کے ساتھ بیرون شہر مقیم ہے ، خوش ہے وہ بقول شوہر انتہائی پاکباز نہایت محنتی اور بے انتہا خدمت گذار ہے لیکن بہت ضدی بھی ہے ، لڑکی کی کل کائینات اس کا شوہر اوردو بچے ہیں چھوٹی چھوٹی نوک جونک کے علاوہ صوائے ایک کے کوئی بڑی بات ان دونوں کے درمیان پچھلے ۱۴ سالوں میں کبھی نہیں ہوئی کیونکہ دونوں جانتے ہیں کہ ان دونوں کے علاوہ مشکل وقت میں کوئی سب سے بڑا مددگار نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ لڑکی کا شیڈول سال بھر انتہائی تکلیف والا ہے یعنی صبح ۴بجے شوہر کے ٹفن کے لئے اٹھنا پھر کچھ آرام کے بعد بچوں کے اسکول کی تیاری پھر دن بھر کی الگ مصروفیت کے بعد دوپہر ۳ سے ۹ تک لگاتار چھوٹے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا اور بھی بہت کچھ، اس طرح ٹکڑوں میں نیند کے سبب اکثر بوجھل بوجھل بیمار اور کبھی ڈپریشن کا شکار رہتی ہے لڑکا جو کہ سرکاری ملازم ہے سال بھر اپنے مصروف ترین کاموں میں مشغول بلکہ پریشان رہتا ہے ، بڑے شہر کی سفر کی تکالیف کو جھیلتا ہے اور وہ بھی اکثر بیمار رہتا ہے ، سال کے آخر میں دیڑھ مہینہ لڑکے کو چھٹیاں رہتی ہیں چونکہ لڑکے کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے ، والد ( عمر ۷۲ سال) اپنی بیمار و کمزور والدہ ( عمر ۹۰ سال ) کے ساتھ آبائی شہر میں ہیں والدہ کی خدمت کے سبب وہ لڑکے کے یہاں سال بھر میں بمشکل ۱۰-۱۵ دن آتے ہیں، والد کا اپنے لڑکے سے جائز اصرار ( زبردست) ہوتا ہے کہ کم از کم چھٹیاں بوڑھے باپ کے یہاں گذاری جائیں تاکہ وہ بھی اپنے پوتا پوتی کے ساتھ کچھ وقت گذاریں اور سارے رشتہ داروں یعنی لڑکے کی بہنیں دادی ساتھ ہی لڑکی کے والدوالدہ بھائی بہنوں سے ملنا جلنا ہوگا اور تعلقات قائم رہیں گے کیونکہ آپ ان سے سال بھر کسی تعلق میں نہیں رہتے ، یہاں لڑکی کی ہمیشہ ضد یہ ہوتی ہے کہ سال بھر کی محنت کے بعد کچھ وقت آرام کا رہتا ہے اس میں گاوں جانا کسی طرح منظور نہیں ہوتا اسی میں دونوں میاں بیوی میں بہت بحثیں بھی ہوتی ہیں لیکن کسی طرح سے لڑکا ہر سال منوا لیتا ہے کیونکہ لڑکا خود بھی کچھ وقت کی تبدیلی چاہتا ہے ۔ اور لڑکی آبائی وطن کی برائیاں بیان کرکے جانے سے روکتی ہے لڑکا والد کو ناراض نہیں کرسکتا کیونکہ والد کی طرف سے دونوں کے لئے اصرار ہوتا ہے کہ آبائی شہر آئیں، لڑکا بیوی سے اصرار کرتا ہے کہ والد جب تک زندہ ہیں تب تک تو جانا ہی پڑیگا بیوی راضی نہیں رہتی اس کے حساب سے انہیں ہی تبدیلی کے لئے یہاں آنا چاہیے ، ایسی بحثوں میں اکثر نہ کہنے والے الفاظ بھی کہے جاتے ہیں کچھ دن بعد پھر سب ٹھیک ہوجاتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں مذہبا" کون سی بات صحیح ہے لڑکا صحیح ہے یا لڑکی کی بات؟ والد کی بات اس صورت میں کیا معنی رکھتی ہے ؟ مہربانی فرما کر مدلل جواب سے اطمئینان دلائیں۔ نوازش ہوگی۔

    جواب نمبر: 160831

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 957-81T/H=8/1439

    دونوں (زوجین) کو ضد اور بحثا بحثی کا راستہ چھوڑ کر ایک دوسرے کی بات اور دکھ درد کو سمجھ کر حسنِ معاشرت کا راستہ اپنانا چاہئے جب ہر ایک کے نزدیک لینے کے باٹ اور ہوں اور دینے کے باٹ دوسرے ہوں تو پھر رشتہ ازدواج میں دراڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جس سے پوری زندگی تلخ ہو جاتی ہے ابھی چونکہ ماشاء اللہ والد صاحب (بیوی کے سسر) حیات ہیں اور وہ بوڑھے بیمار بھی ہیں تو دونوں کو چاہئے کہ ان کے بھی جذباتِ صالحہ کی رعایت ملحوظ رکھیں البتہ بیوی کو وہاں کچھ دن رہنے پر واقعةً تکلیف ہو تو شوہر کو چاہئے کہ اس تکلیف کے ازالہ کی حتی المقدرت کوشش کرے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند