• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 159747

    عنوان: ویب سائٹس سے ریسرچ پیپر ڈاؤن لوڈ كرنا؟

    سوال: سائنس دان اپنا ریسرچ پیپرس(research papers(تحقیقی مقالہ) مختلف شمارہ میں شائع کرنے کے لئے دیتے ہیں۔ کچھ سائٹیں ایسی ہیں کہ جن پر بہت زیادہ شمارے دستیاب ہوتے ہیں جن پر ریسرچ پیپرس شائع ہوتے ہیں، جیسے: (سائنس ڈائریکٹ ڈاٹ کام اور ایلس ویئر [science direct.com or elesveir])۔ یہ سائٹیں مطبوعات کی اشاعت کے بعد ایک ریسرچ پیپر کو پڑھنے کے لئے ۳۰/ ڈالر (30$) تک چارج کر سکتی ہیں۔ (یعنی پیپر خریدنا پڑ سکتا ہے اپنے ریسرچ کے متعلق)، کچھ فری بھی ہوتا ہے۔ یہ قانون پیسہ نہ دینے والوں کے لیے ہے۔ عام طور پر ادارہ یا یونیورسٹی شمارہ کو حاصل کرنے کی فیس ادا کرکے حاصل کر لیتی ہے تاکہ اس کے طلباء پیپرس کو بآسانی پڑھ سکیں ۔ ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو ریسرچ پیپر(تحقیقی مقالہ)، فری فراہم کرتی ہے۔ ان کے کام کا طریقہ ان کے مطابق یہ ہے کہ جب کوئی یوزر ( نیٹ استعمال کرنے والا) کسی ریسرچ پیپر کو ڈاوٴن لوڈ کرنے کی درخواست کرتا ہے تو ادارہ پیسہ ادا کرکے جنرل (شمارہ) سے پیپر(تحقیقی مقالہ) نکال لیتا ہے، ایک کاپی ویب سائٹ پر اسٹور کی جاتی ہے اور استعمال کرنے والوں کو بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس ویب سائٹ کا نام سائنس ہب ڈاٹ کام (science hub.com) ہے۔ لیکن اس ویب سائٹ پر لوگوں سے دھوکہ سے ان کی سبسکرپشن ای میل کے ذریعہ لینے کے بارے میں بھی پڑھاہے نیٹ پر۔ فری ریسرچ پیپر مہیا کرنے کی وجہ سے بہت مشہور ویب سائٹ سمجھی جاتی ہے۔ آپ انٹر نیٹ پر مزید معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسی ویب سائٹ سے پیپر ڈاوٴن لوڈ کرنے کے بارے میں اسلامی تعلیمات بتادیجئے۔ اگر میرا سوال عوامی سطح پر شائع کریں تو براہ کرم، میرا نام نہ لکھیں۔

    جواب نمبر: 159747

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1161-131T/sd=9/1439

    جب تک یقین کے ذریعے معلوم نہ ہوجائے کہ مذکورہ ویب سائٹ لوگوں سے واقعی دھوکہ کے ذریعے تحقیقی مقالہ حاصل کرلیتی ہے ، اُس وقت تک محض شک و شبہ کی بناء پر مذکورہ ویب سائٹ سے پیپر ڈاوٴن لوڈ کرنا ناجائز نہیں ہوگا؛ البتہ ذاتی طور پر احتیاط کرنے میں مضائقہ نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند