متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 159320
جواب نمبر: 159320
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:764-715/L=7/1439
حضرت امام اعظم علیہ الرحمہ کے بارے میں کتابوں کے اندر یہ صراحت مذکور ہے کہ حضرت نے چالیس سال عشاء کی وضو سے فجر کی نماز اداء فرمائی ہے یہ اعتراض کرنا کہ یہ کیسے ممکن ہے اس سلسلے میں اولاً عرض یہ ہے کہ جب معتمد موٴرخین امام نووی جیسے حضرات اس کو نقل کرتے چلے یرہے ہیں تو اس کا انکار کرنا گویا تاریخ کا انکار کرنا ہے، ثانیاً عام انسانوں کے بارے میں تو یہ اشکال ہوسکتا ہے لیکن اولیاء اللہ سے ایسا کرامة ممکن ہے ’ثالثا‘ بشری تقاضہ کا مدار شکم سیری پر ہے اور جو شخص برائے نام غذا استعمال کرتا ہو اس کے لیے یہ ممکن ہے کہ پوری رات اس کو بشری تقاضہ پیش نہ آئے ’رابعا‘ اس کا تعلق جگہ سے بھی ہوسکتا ہے بعض جگہوں پر اس کی ضرورت بہت کم محسوس ہوتی ہے جب کہ دوسری بعض جگہوں کے لوگوں کو اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے اس کی آسان مثال اس سے دی جاسکتی ہے کہ حج یا عمرہ کے دوران ایک عام آدمی بھی بآسانی عصر کے وضو سے عشاء پڑھ لیتا ہے جب کہ دیگر جگہوں پر اس کا امکان کم رہتا ہے، بایں وجوہ امام صاحب پر یہ اشکال درست نہیں، وقد صلی لافجر بوضوء العشاء أربعین سنة وحج خمسا وخمسین حجة ورأی ربَہ في المنام مائة مرة (رد المحتار: ۱/ ۱۴۴، ط: زکریا دیوبند) قال: حَدَّثَنَا حماد بن قریش، قال: سمعت أسد بن عَمْرو یَقُولُ: صلی أَبُو حنیفة فیما حفظ عَلَیْہِ صلاة الفجر بوضوء العشاء أربعین سنة، فَکَانَ عامة اللیل یقرأ جمیع القرآن فِی رکعة واحدة، وکَانَ یسمع بکاؤہ باللیل حَتَّی یرحمہ جیرانہ وحفظ عَلَیْہِ أنہ ختم القرآن فِی الموضع الذی توفی فیہ سبعین ألف مرة. (تہذیب الکمال في أسماء الرجال: ۷/ ۳۴۳، ط: موٴسسة الرسالة) یحیی بن عبد الحمید الحمانی: عن أبیہ: أنہ صحب أبا حنیفة ستة أشہر. قال: فما رأیتہ صلی الغداة إلا بوضوء عشاء الآخرة، وکان یختم کل لیلة عند السحر․ (سیر أعلام النبلاء: ۷/۴۰۰، ط: موٴسسة ا لرسالة)
نیز دیکھئے تہذیب الاسماء واللغات: ۲/ ۲۲۰، ط: دار الکتب العلمیہ بیروت۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند