• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 158792

    عنوان: آفس اسٹاف کی ایک اسکیم کا حکم

    سوال: حضرت، میرا سوال یہ ہے کہ آفس اسٹاف نے مل کر ایک اسکیم شروع کی ہے جس میں آفس اسٹاف ہر مہینہ کچھ فکس رقم جمع کرتے ہیں اور ہر سال قرعہ اندازی کے ذریعہ کچھ اسٹاف کو حج اور عمرہ پر بھیجا جاتا ہے۔ یہ رقم بغیر کسی زور زبردستی کے اسٹاف اپنی مرضی سے جمع کراتے ہیں اور چاہیں تو اس اسکیم سے الگ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ پیسے اس نیت کے ساتھ جمع کئے جاتے ہیں کہ اگر اس سال میرا حج یا عمرہ کے لیے بلاوا ہوگا تو میرا نام نکلے گا (ان شاء اللہ) اور اگر نہیں! تو میرے کسی بھائی کا نام نکلے گا اور اس کے حج یا عمرہ کا ثواب مجھے بھی ملے گا (ان شاء اللہ)۔ اس کی کچھ اور شرطیں بھی ہیں:۔ (۱) ایک بار قرعہ اندازی میں نام آنے کے بعد دوبارہ نام نہیں ڈالا جائے گا، لیکن ہر مہینہ رقم دینا لازمی ہوگا جب تک کمپنی کے ساتھ ہیں۔ (۲) اگر کسی کا نام نہیں آیا تو اسے رقم واپس نہیں ملے گی کیونکہ اس رقم سے کسی دوسرے بھائی نے حج یا عمرہ کرلیا ہے جس کا ثواب ہم امید کرتے ہیں کہ ہمیں بھی ملا ہوگا۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ اس طریقہ کار میں کوئی مسئلہ ہے یا یہ ٹھیک ہے؟

    جواب نمبر: 158792

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:549-1196/N=1/1440

     آپ کے آفس اسٹاف نے باہم جو اسکیم شروع کی ہے، یہ محض باہمی تعاون کی شکل نہیں ہے؛ بلکہ شرعی نقطہ نظر سے یہ ایک مالی معاملہ ہے اور اس میں ہر ممبر کے بارے میں یہ امکان ہے کہ قرعہ میں اس کا نام آجائے اور وہ حج یا عمرہ پر جائے اور یہ بھی امکان ہے کہ پوری اسکیم میں اس کا نام نہ آئے اور وہ حج یا عمرہ پر نہ جاسکے اور یہ محض تسلی کی بات ہے کہ میں نہیں گیا، میرا ساتھی چلا گیا، بہر حال سوال میں مذکور معاملہ شرعی نقطہ نظر سے قمار پر مشتمل ہے اور قمار شریعت میں ناجائز وحرام ہے؛ اس لیے از روئے شرع یہ اسکیم ناجائز ہے؛ البتہ اگر ناموں کی قرعہ اندازی میں اسکیم میں شرکت کرنے والوں کی شرط نہ ہو؛ بلکہ قرعہ اندازی میں اسٹاف کے وہ لوگ بھی شامل ہوں جو اسکیم میں شامل نہ ہوں، نیز اسکیم میں شریک لوگوں میں ہر شخص اپنی مرضی وخوشی سے جتنی رقم دینا چاہے دے اور اگر کوئی شخص کسی ماہ یا سال کچھ نہ دینا چاہے تو اس پر کوئی جبر نہ ہو اور جو شخص دے وہ رقم دے کر بالکل مستغنی ہوجائے تو یہ شکل بہ ظاہر جائز ہوسکتی ہے۔

    قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (المائدة، ۹۰)، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر (المسند للإمام أحمد، ۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱)، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وقال اللہ تعالی: ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند