متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 158792
جواب نمبر: 158792
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:549-1196/N=1/1440
آپ کے آفس اسٹاف نے باہم جو اسکیم شروع کی ہے، یہ محض باہمی تعاون کی شکل نہیں ہے؛ بلکہ شرعی نقطہ نظر سے یہ ایک مالی معاملہ ہے اور اس میں ہر ممبر کے بارے میں یہ امکان ہے کہ قرعہ میں اس کا نام آجائے اور وہ حج یا عمرہ پر جائے اور یہ بھی امکان ہے کہ پوری اسکیم میں اس کا نام نہ آئے اور وہ حج یا عمرہ پر نہ جاسکے اور یہ محض تسلی کی بات ہے کہ میں نہیں گیا، میرا ساتھی چلا گیا، بہر حال سوال میں مذکور معاملہ شرعی نقطہ نظر سے قمار پر مشتمل ہے اور قمار شریعت میں ناجائز وحرام ہے؛ اس لیے از روئے شرع یہ اسکیم ناجائز ہے؛ البتہ اگر ناموں کی قرعہ اندازی میں اسکیم میں شرکت کرنے والوں کی شرط نہ ہو؛ بلکہ قرعہ اندازی میں اسٹاف کے وہ لوگ بھی شامل ہوں جو اسکیم میں شامل نہ ہوں، نیز اسکیم میں شریک لوگوں میں ہر شخص اپنی مرضی وخوشی سے جتنی رقم دینا چاہے دے اور اگر کوئی شخص کسی ماہ یا سال کچھ نہ دینا چاہے تو اس پر کوئی جبر نہ ہو اور جو شخص دے وہ رقم دے کر بالکل مستغنی ہوجائے تو یہ شکل بہ ظاہر جائز ہوسکتی ہے۔
قال اللّٰہ تعالی: وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)، یٰأیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون (المائدة، ۹۰)، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ حرم علی أمتي الخمر والمیسر (المسند للإمام أحمد، ۲: ۳۵۱، رقم الحدیث: ۶۵۱۱)، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة (معالم التنزیل ۲: ۵۰)، لأن القمار من القمر الذي یزداد تارةً وینقص أخریٰ۔ وسمی القمار قمارًا؛ لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ، وہو حرام بالنص (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء، فصل في البیع، ۹: ۵۷۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وقال اللہ تعالی: ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان (سورة المائدة، رقم الآیة: ۲)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند