• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 158649

    عنوان: کیا مسلمانوں کے موجودہ حالات ان کے برے اعمال کا نتیجہ ہیں؟

    سوال: کیا اللہ کے فیصلے ہمارے اعمال کے متعلق ہوتے ہیں؟ یعنی برے اعمال کا برا انجام دنیا میں مثلاً اب جب مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی ہو رہی ہے، کیا یہ اس لیے کہ یہ ہمارے برے اعمال کے نتیجے ہیں؟

    جواب نمبر: 158649

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 520-444/N=5/1439

    جی ہاں!ہم پر جو مصائب وپریشانیاں آتی ہیں، وہ ہمارے برے اعمال ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:وَمَا أَصَابَکُمْ مِنْ مُصِیبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیرٍ (سورة الشوری،۳۰)، یعنی: اور تم کو جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے اور بہت سی چیزوں سے اللہ تعالی در گذر فرماتے ہیں؛ البتہ برائیاں دو طرح کی ہوتی ہیں؛ ایک شخصی وانفرادی، دوسرے: ملی واجتماعی۔ نیز بعض ملی واجتماعی غلطیاں بہت دور رس اور خطرناک ہوتی ہیں اور ان کے نقصانات بھی دور رس اور خطرناک ہوتے ہیں اور صدیوں تک اس کے اثرات جاتے ہیں؛ اس لیے مسلمانوں کو دونوں اعتبار سے اپنے اعمال کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جس شخص کے بس میں جس طرح کے اعمال کی درستگی ہو، اس کو اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے اور جن کے پاس کچھ بھی اسباب نہ ہوں، وہ اپنے لیے اور پورے عالم کے مسلمانوں کے لیے کم از کم دن میں متعدد مرتبہ توبہ واستغفار اور دعا کا اہتمام کرے ، ندامت کے ساتھ توبہ واستغفار اور دعاوٴں کا اہتمام بھی حالات کی تبدیلی میں بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کی دعائیں اس وقت اللہ تعالی کے یہاں قبول ہوتی ہیں، جب وہ اپنے اعمال کی بھی اصلاح کریں اوراللہ تعالی کی طرف رجوع ہوں، بے دینی اور خدا بیزاری کے ساتھ محض ظاہری تدابیر وکوششیں ہرگز کافی یا کار آمد نہیں ہوسکتیں ۔ اللہ تعالی ہم مسلمانوں کو صحیح سمجھ بوجھ عطا فرمائیں، ہمارے شخصی واجتماعی احوال کو درست فرمائیں اور اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین بفضلک وکرمک ۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند