• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 157702

    عنوان: کیا بینک اکاونٹس اموال ظاہرہ کے حکم میں ہے ؟

    سوال: کیا بینک اکاونٹس اموال ظاہرہ کے حکم میں ہے ؟ یا اموال باطنہ کے حکم میں ہے ؟باحوالہ جواب ارسال فرمائیں۔

    جواب نمبر: 157702

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:462-729/sn=9/1439

    فقہائے کرام نے مویشیوں، کھیتوں اور باغات کی پیداوار اسی طرح مالِ تجارت جو شہر سے باہر لے جارہا ہو کو اموالِ ظاہرہ میں شمارکیا ہے، درہم دنانیر، زیورات اور دیگر قابل زکات اموال کو اموال باطنہ شمار کیا ہے، بینک اکاوٴنٹس چونکہ بہ صورت نقد ہوتے ہیں؛ اس لیے ظاہر کا تقاضا یہی ہے کہ بینک اکاوٴنٹس بھی درہم اور دنانیر کی طرح اموالِ باطنہ میں شمار ہوں، چناں چہ فتاوی محمودیہ (۹/ ۳۵۹، ط: ڈابھیل، گجرات) میں اسی طرح خیرالفتاوی (۳/۳۷۲تا ۳۷۳، ط: ملتان) میں بینک ا کاوٴنٹس کو اموالِ باطنہ میں شمار کیا گیا ہے؛ لیکن چوں کہ آدمی جب اپنا مال بینک اکاوٴنٹس میں جمع کردیتا ہے تو وہ حکومت کی نظر میں آجاتا ہے، اسلامی حکومت اگر اس سے زکات وصول کرنا چاہے تو نجی مقامات کی تلاشی کی ضرورت نہیں ہوتی؛ اس لیے بعض علماء نے بینک اکاوٴنٹس کو اموالِ ظاہر میں شمار کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیں: فتاوی عثمانی: ۲/۸۴تا ۸۷بہ عنوان اموالِ ظاہر وباطنہ، ط: مکتبہ معارف القرآن کراچی)؛ باقی اس مسئلے کا تعلق چونکہ حکومت کی نوعیت وغیرہ سے بھی ہے اس لیے مقامی معتبر دارالافتاؤں سے رجوع کیا جائے تو بہتر ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند