• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 156983

    عنوان: کیا جسم کے جس حصہ پر استاذ کی قمچی لگتی ہے ، اس پر دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے؟

    سوال: (۱) زمانہ طالب علمی میں ہمارے استاذ صاحب تمام عزیز کے ساتھ کافی پٹائی کیا کرتے تھے ، چمڑے کی بیلٹ یا ہیٹر کے تار سے اور اس پر وہ یہ کہتے تھے کہ جہاں پر استاذ کی قمچی لگ جاتی ہے جسم کے اس حصہ پر دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے ۔ (۲) ۲ طلباء عزیز کو زبردستی یا زنجیروں میں باندھ کر (وہ علم دین سکھانا جو فرض کفایہ ہے ) کیا درست ہے ؟ مذکورہ بالا دونوں سوالات کے مدلل ومعقول جوابات مرحمت فرمائیں کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ احسان عظیم ہوگا۔

    جواب نمبر: 156983

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:305-325/N=4/1439

    (۱): قرآن وحدیث یاکسی معتبر کتاب میں ہمیں یہ بات نہیں ملی کہ جسم کے جس حصہ پر استاذ کی قمچی لگتی ہے، اس حصہ پر دوزخ کی آگ حرام ہوجاتی ہے؛ بلکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مرداسسے فرمایا تھا جو بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے: ”تم بچوں کو تین سے زیادہ نہ مارنا، اگر تم نے تین سے زیادہ مارا اللہ تعالی تم سے اخرت میں قصاص (بدلہ) لیں گے“۔ اور فقہاء نے اس حدیث کی روشنی میں فرمایا کہ تربیت کے لیے استاد ہاتھ سے ہلکی پھلکی پٹائی کرسکتا ہے، لیکن ایک وقت میں تین مرتبہ سے زیادہ نہ مارے اور چھڑی، لاٹھی، ڈنڈا،کوڑا اور چمڑے کی بیلٹ وغیرہ سے ہرگز نہ مارے، شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے خواہ فرض عین کے درجے کی تعلیم ہو یا فرض کفایہ کے درجے کی ۔ اسی طرح ماں باپ بھی تربیت کی خاطر اولاد کی صرف ہاتھ سے ہلکی پھلکی پٹائی کرسکتے ہیں، چھڑی وغیرہ سے نہیں مارسکتے؛ اس لیے مکاتب یا مدارس میں بعض اساتذہ کا طلبہ کو زنجیروں میں باندھ کر بے تحاشہ مارنا،یا چھڑی یا چمڑے کی بیلٹ وغیرہ سے مارنا ہرگز جائز نہیں ہے، اساتذہ کو اس سے بچنا چاہیے، طلبہ کو صرف شفقت ومحبت سے تعلیم دینا چاہیے یا ہلکی پھلکی مار یا سزاپر اکتفا کرنا چاہیے۔

    قولہ: ” بید“: أي: ولا یجاوز الثلاث، وکذلک المعلم لیس لہ أن یجاوزھا، قال علیہ الصلاة والسلام لمرداس المعلم:”إیاک أن تضرب فوق الثلاث؛ فإنک إذا ضربت فوق الثلاث اقتص اللہ منک“ اھ إسماعیل عن أحکام الصغار للأستروشني، وظاھرہ أنہ لا یضرب بالعصا في غیر الصلاة أیضاً۔ قولہ: ”لا بخشبة“: أي: عصاً، ومقتضی قولہ: ”بید“ أن یراد بالخشبة ما ھو الأعم منھا ومن السوط، أفادہ ط (رد المحتار، أول کتاب الصلاة، ۲:، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند