• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 156318

    عنوان: متعینہ ذمے داری سے زائد كام كرنے پر انعام؟

    سوال: میں قطر میں ایک فرنیچر کے شوروم سیلس مین کا کام سر انجام دے رہا ہوں، اس میں ہم لوگ کو انفرادی طور پر ایک حدود دیا گیا ہے کہ جب آپ اسکو عبور کر لینگے تو آپ کو ۵۰۰ریال دیا جائے گا علاوہ تنخواہ کے اب کچھ لوگ اس حدود کو پار کر نے کی خواہش میں دوسرے لڑکوں سے مدد لیتے ہیں تاکہ اسکو پار کر لوں اور زائد ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ پا سکوں جبکہ کمپنی نے انفرادی طور پر کرنے کا حکم دیا ہے اور ایسا کر رہے ہیں اور زائد ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ لیے رہے ہیں اسکا علم کمپنی کو نہیں ہے کہ لڑکے اس طرح سے دھوکہ دھڑی کر کے زیادہ ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ کماں رہے ہیں اس صورت یہ ۵۰۰ یا ۱۰۰۰ حرام یا حلال ؟

    جواب نمبر: 156318

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:200-281/N=3/1439

     آپ کی کمپنی نے جب ہر سیلس مین کو انفرادی طور پر ایک متعینہ حد پار کرنے پر ۵۰۰یا ۱۰۰۰/ ریال کا انعام رکھا ہے، دوسرے سیلس مین کی کچھ کارکردگی اپنے حصہ میں جوڑ کر یا اپنے حصہ کی کچھ کار کردگی دوسرے کے حصہ میں جوڑ کرمجموعی طور پر متعینہ حد پار کرنے کا کمپنی کے نزدیک کچھ اعتبار نہیں ہے؛ بلکہ کمپنی کی طرف سے اس کی اجازت بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں کسی سیلس مین کا دوسرے سیلس مین کی کچھ کار کردگی اپنے حصہ میں جوڑ کریہ ظاہر کرنا کہ اس نے متعینہ حد پار کی ہے اوراس طرح ۱۰۰۰یا ۵۰۰/ ریال انعام حاصل کرنا یا اپنے حصہ کی کچھ کار کردگی دوسرے سیلس مین کے حصہ میں جوڑ دینا تاکہ وہ متعینہ حد پار کرنے کی وجہ انعام حاصل کرسکے، شرعاً جائز نہیں ہے، یہ بلا شبہ کمپنی کے ساتھ جھوٹ اور دھوکہ دھڑی ہے اور حرام ہے اور اس طرح جھوٹ اور دھوکہ دھڑی کے ساتھ حاصل ہونے والا انعام بھی شرعاً ناجائز وحرام ہے۔

    عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا کذب العبد تباعد عنہ الملَکُ میلاً من نتن ما جاء بہ الخ (سنن الترمذي، رقم: ۱۹۷۲)،عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … إیاکم والکذب؛ فإن الکذب یہدي إلی الفجور، وإن الفجور یہدي إلی النار، وما یزال الرجل یکذِبُ ویتحریَّ الکذب حتی یُکتَب عند اللّٰہ کَذَّابًا(الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلة، باب قُبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ، ۲:۳۳۶، رقم: ۲۶۰۷ط:بیت الأفکار الدولیة، سنن الترمذي، أبواب البر والصلة، باب ما جاء في الصدق والکذب ۲:۸)،عن أبي ہریرة رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرَّ علی صبرةٍ من طعام فأدخل یدہ فیہا فنالت أصابعہ بللاً فقال: یا صاحب الطعام ما ہٰذا؟ قال: أصابتہ الماء یا رسول اللّٰہ! قال: أفلا جعلتہ فوق الطعام حتی یراہ الناس، ثم قال: من غش فلیس منا (سنن الترمذي،أبواب البیوع،باب ما جاء في کراہیة الغش في البیوع ۱:۴۵، رقم: ۱۳۱۵)،﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة(معالم التنزیل ۲: ۵۰)، من أخذ مال غیرہ لا علی وجہ إذن الشرع، فقد أکلہ بالباطل (الجامع لأحکام القرآن للقرطبي، ۲:۳۲۳، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت) ، لافرق بین الکذب بالکتابة أو التکلم (تکملة رد المحتار ۱: ۱۵۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند