• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 155916

    عنوان: گھر کو لیز لینے کی جائز وناجائز تمام شکلیں

    سوال: مجھے گھر کو لیز لینے کی جائز وناجائز تمام شکلیں بالدلیل مطلوب ہیں۔ اگر کوئی شکل جائز نہ ہو تو لیز پر گھر لے کر یہ حیلہ کرنا کہ مہینہ میں کچھ رقم ادا کردی جائے جو مروجہ نہ ہو جبکہ گھر کا مالک بھی اس پر راضی ہو؟

    جواب نمبر: 155916

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:126-313/N=4/1439

    لیز پر مکان لینے کی جتنی شکلیں آپ کے علم میں ہیں اور آپ ان کا حکم شرعی جاننا چاہتے ہیں، اگر آپ وہ سب شکلیں تحریر فرماکر سوال کرتے تو بہتر تھا، ویسے ذیل میں مروجہ کرایہ داری سے متعلق چند اہم شکلیں معہ حکم شرعی تحریر کی جاتی ہیں، اور اگر آپ مزید شکلوں کا حکم جاننا چاہتے ہوں تو براہ کرم! انھیں تفصیل کے ساتھ لکھ کر بھیجیں، إن شاء اللہ ہر شکل کا حکم شرعی تحریر کردیا جائے گا۔مروجہ کرایہ داری سے متعلق چند اہم شکلیں معہ حکم شرعی حسب ذیل ہیں:

    پہلی شکل: مکان مالک کرایہ دار سے ڈپازٹ یا ایڈوانس کے نام سے ایک موٹی رقم وصول کرے اور دونوں کے درمیان یہ طے ہو کہ جب تک کرایہ دار مکان میں رہے گا، مکان مالک ڈپازٹ کی رقم استعمال کرے گا اور جب کرایہ دار مکان چھوڑنا چاہے گا تو اسے اس کی مکمل رقم واپس کردی جائے گی اور مکان مالک ڈپازٹ کے علاوہ کرایہ دار سے کرایہ کے نام پر کچھ بھی رقم نہ لے۔

    پہلی شکل حکم شرعی: یہ شکل از روئے شرع ناجائز وحرام ہے؛ کیوں کہ کرایہ دار ڈپازٹ یا ایڈوانس کے نام سے جو رقم مکان مالک کو دیتا ہے، اس کی حیثیت شرعاً قرض کی ہے اور مکان مالک اسے قرض ہی کی بنیاد پرمکان کی مفت رہائش دیتا ہے ؛ جب کہ شریعت میں قرض کا معاملہ خالص عقد تبرع ہے، اس کی بنیاد پر مقروض سے کوئی بھی نفع حاصل کرنا جائز نہیں، وہ سود کے حکم میں ہوتا ہے۔

    دوسری شکل: مکان مالک کرایہ دار سے ڈپازٹ یا ایڈوانس کے نام سے ایک موٹی رقم وصول کرے؛ البتہ پہلی صورت میں جتنی رقم وصول کی جاتی ہے، اس سے کچھ کم، اور کرایہ دار سے ماہانہ کچھ کرایہ بھی وصول کرے، جس کی مقدار مکان کی اجرت مثل سے بھی بہت کم ہو، مثلاً مکان کا کرایہ اس کی کنڈیشن اور جائے وقوع وغیرہ کے لحاظ سے دس ہزار روپے ہے؛ لیکن ڈپازٹ کی وجہ سے صرف ۵۰۰یا ۱۰۰۰/ روپے لیے جائیں اور ڈپازٹ کے بارے میں اس صورت میں بھی یہ طے ہو کہ جب تک کرایہ دار مکان میں رہے گا، مکان مالک ڈپازٹ کی رقم استعمال کرے گا اور جب کرایہ دار مکان چھوڑنا چاہے گا تو اسے اس کی مکمل رقم واپس کردی جائے گی۔

    دوسری شکل کا حکم شرعی:یہ شکل بھی از روئے شرع ناجائز وحرام ہے؛ کیوں کہ اس صورت میں کرایہ دار کو قرض کی بنا پر مفت رہائش تو نہیں مل رہی ہے ؛ لیکن کرایہ کی کمی کا نفع اسے ضرور حاصل ہورہا ہے اور قرض کی بنیاد پر مفت رہائش کی شکل میں یا کرایہ کی مقدار میں کمی کی شکل میں یا کسی بھی شکل میں کوئی نفع حاصل کرنا شرعاً بحکم سود ہوتا ہے؛ اس لیے یہ شکل بھی شرعاً ناجائز ہے۔

    اور اگر کرایہ دار مکان مالک کو اس کے مکان کا مکمل کرایہ دے ، اس میں کوئی کمی نہ کرے؛ لیکن مکان مالک ڈپازٹ کی رقم لیے بغیر مکان کرایہ پر دینے کے لیے تیار نہ ہو تو ایسی صورت میں کرایہ دار کے لیے مجبوراً ڈپازٹ کے نام پر رقم دینا جائز ہوگا؛ البتہ وہ ڈپازٹ میں صرف اتنی رقم دے جس کی وجہ سے کرایہ میں کوئی کمی نہ کی جائے اور نہ ہی مطلق ڈپازٹ کی وجہ سے کرایہ کم کرایا جائے۔

    أنواع الربا،وأما الربا فھو علی ثلاثة أوجہ :أحدھا فی القروض، والثاني فی الدیون، والثالث فی الرھون۔الربا فی القروض فأما فی القروض فھو علی وجھین:أحدھما أن یقرض عشرة دراھم بأحد عشر درھما أو باثني عشر ونحوھا۔والآخر أن یجر إلی نفسہ منفعة بذلک القرض، أو تجر إلیہ وھو أن یبیعہ المستقرض شےئا بأرخص مما یباع أو یوٴجرہ أو یھبہ ………،ولو لم یکن سبب ذلک (ھذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک ربا ، وعلی ذلک قول إبراھیم النخعي: کل دین جر منفعة لا خیر فیہ (النتف فی الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵) ۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند