• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 155273

    عنوان: کسی غیر نبی کو علیہ السلام کہنا کیسا ہے اگر منع ہے تو کیوں؟

    سوال: مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں برائے کرم۔ (1) شیعہ جس طرح 12 اماموں کو مانتے ہیں ،کیا ہم لوگ ان کو امام کہ کر منسوب کر سکتے ہیں؟ (2) حضرت علی یا کسی غیر نبی کو علیہ السلام کہنا کیسا ہے اگر منع ہے تو کیونکر؟ (3) حضرت مہدی کے نام سے پہلے امام لفظ بولنا جبکہ اعتقاد نہ ہو کیسا ہے ؟اگر امام نہیں کہہ سکتے تو اکراماَ کیا کہنا چاہئے ؟ جواب مطلوب ہے نوازش ہو گی۔

    جواب نمبر: 155273

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:92-184/H=2/1439

    (۱) شیعہ مذہب جن اکابر کو امام کہتا ہے بلاشبہ وہ سب اہل سنت والجماعت کے اکابر اور مسلمانوں کی آنکھوں کا نور تھے، وہ سب، صحابہٴ اور تابعین کے طریقہ کے پیروکار تھے؛ لیکن شیعہ مذہب ان اکابر کو امام معصوم جانتا ہے اور اس مذہب کا یہ امامت کا نظریہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کے سراسر خلاف ہے؛ اس لیے اگرچہ لفظ امام کا اطلاق ان اکابر پر کیا جاسکتا ہے؛ لیکن چونکہ عامةً شیعہ لفظ امام کا اطلاق ان حضرات کی جماعت مقدسہ پر معصوم ہونے کے لحاظ سے کرتے ہیں؛ اس لیے ان کی مشابہت ہونے کی وجہ سے اس سے بچنا ضروری ہے۔ والتشبہ بأہل البدع منہي عنہ فتجب مخالفتہم (رد المحتار: ۱۰/۴۸۴، کتاب الخنثی ط: زکریا دیوبند)

    (۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ علیہ السلام لکھنا یا کہنا اہل بدعت کا شعار ہے؛ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی غیرنبی کے لیے منفردا علیہ السلام کے استعمال سے بچنا چاہیے۔ أنہ قولہ علي علیہ السلام من شعار أہل البدعة، فلا یستحسن في مقام المرام (شرح الفقہ الأکبر: ۱۶۷، ط: قدیمی) وأما السلام فنقل اللقاني عن الجویني أنہ في معنی الصلاة فلا یستعمل فيالغائب ولا یفرد بہ غیر الأنبیاء، فلا یقال علي علیہ السلام وسواء في ہذا الأحیاء والأموات․․․ والظاہر أن العلة في منع السلام ما قالہ النووي في علة منع الصلاة أن ذلک شعار أہل البدع ولأن ذلک مخصوص في لسان السلف بالأنبیاء علیہم السلام․ (رد المحتار: ۱۰/ ۴۸۳-۴۸۴، کتاب الخنثی فصل في مسائل شتی: ط: زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند