متفرقات >> دیگر
سوال نمبر: 153186
جواب نمبر: 153186
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1207-1163/B=11/1438
(۱) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں دو طرح کی ہیں: (۱) سنن ہدی (۲) سنن زوائد۔ سنن ہدی کو اپنانا ضروری ہے، اور سننِ زوائد میں بندہ کو اختیار ہے۔ شرعی مقدار میں ڈاڑھی رکھنا سنن ہدی میں سے ہے، اس کا رکھنا واجب وضروری ہے۔ چاروں ا ئمہ کے نزدیک ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں اور حدیث میں اس کی بڑی تاکید آئی ہے، اور سر پر بال رکھنا سننِ زوائد میں سے ہے اس لیے علمائے کرام سر پر بال رکھنے کو واجب نہیں قرار دیتے ہیں۔ اور سر کے بالوں کو برابر کاٹنے کا حکم اس حدیث کی بنا پر ہے جو ابوداود میں موجود ہے، ”عن نافع عن ابن عمر أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم ․․ فقال: احلقوہ کلہ أو اترکوہ کلہ“ (ص:۵۷۷، اتحاد دیوبند)
(۲) عقیقہ کوئی لازمی وضروری چیز نہیں ہے کہ جس کے ترک پر گناہ ہو، اب اگر آپ اپنے بچوں کا عقیقہ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
(۳) حج وعمرہ کے موقع کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول سر پر بال رکھنے کا تھا؛ لیکن بعض صحابہ سے سر منڈوانا بھی ثابت ہے اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نکیر منقول نہیں ہے، اس لیے اس کو بھی شریعت نے جواز اور رخصت کے درجے میں رکھا ہے: قال العلامة السہارنفوری: وبہذا الحدیث استدل الطیبي علی سنیة حلق الرأس․․․ ورد علیہ القاري وابن حجر فقالا: إن فعلہ -رضي اللہ عنہ- إذا کان مخالفًا لسنتہ -علیہ السلام- وبقیة الخلفاء یکون رخصة لا سنة۔ بذل المجہود: ص۲، ۲۵۰، مکتبہ: مرکز شیخ ابوالحسن الندی، اعظم گڑھ۔
(۴) منبر کے نیچے والے حصے پر پاوٴں رکھ دے اور اوپر والے حصے پر سرین رکھ دے۔
_______________
جواب صحیح اور سوال نمبر ۴کا منشا اگر کچھ اور ہو تو پوری وضاحت کے ساتھ دوبارہ سوال کرلیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند