• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 152731

    عنوان: تراویح کیلئے جمع كیے گئے چندہ کا مسجد میں استعمال

    سوال: سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے و مفتیان شرح متین مسئلہ ہذا میں کہ ہمارے علاقے کی ایک بڑی مسجد و مدرسہ کے زیر اہتمام مسجد کے باہر ایک اسکول کے گراؤنڈ پر 10 دن کی تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے ، تراویح کے آخری دنوں میں تراویح پڑھانے والے حفاظ کے نذرانے اور تراویح کے انتظامات کے اخراجات کیلئے چندہ وصول کیا جاتا ہے ، چندہ وصولتے وقت باقاعدہ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ پیسے نذرانہ دینے اور اخراجات کیلئے لیے جا رہے ہیں مگر امسال معلوم ہوا کہ چندہ کی خاصی رقم جمع ہو گئی تو تراویح پڑھانے والے دونو بچوں کو معمولی رقم دیدی گئی اور بقیہ رقم مسجد میں دیدی گئی. میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کسی اور مقصد سے اصولی گئی رقم مسجد میں لگانا جائز ہے ، کیا یہ دھوکہ دینے جیسا معاملہ نہیں بنتا اور اس سلسلے اگر کوئی ذمہ داران سے سوال کرنا چاہے تو اس کا حق صرف اسی شخص کو ہے جس نے چندہ دیا ہے یا چندہ نہ دینے والا عام مسلمان بھی حساب مانگ سکتا ہے ۔ بینو و توجرو ا

    جواب نمبر: 152731

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1065-1214/sn=12/1438

    اولاً تو حافظ کو نذرانہ دینا اور اس کے لیے چندہ کرنا ہی جائز نہیں ہے اور اس مقصد سے چندہ کرکے مسجد میں صرف کرنا تو اور بھی برا ہے، بہرحال اگر واقعةً چندہ وصول کرنے والوں نے ایسا کیا تو بہت برا کیا، ان پر ضروری ہے کہ معطین چندہ کو اس کی اطلاع دیں، اگر معطین مسجد میں صرف کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کریں تو وصول کنندہ پر ضروری ہے کہ وہ اپنے جیب سے معطین کی رقم انھیں واپس کریں۔

    إذا قیدت الوکالة بقید فلیس للوکیل مخالفتہ (مجلة الأحکام العدلیة، المادة: ۱۴۷۹)

    (۲) محلے کا کوئی بھی ذمے دار فرد مناسب انداز میں منتظمین سے ”حساب“ عام کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے؛ کیونکہ منتظمین در حقیقت جمیع اہل محلہ کی طرف سے ”وکیل“ ہوئے ہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند