• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 145536

    عنوان: موئے مبارک کی زیارت؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ میں کہ شہر چکمگلور کی ایک قدیم مسجد ہے جس میں وہاں کی کمیٹی کے اقرار کرنے کے مطابق موئے مبارک حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم اکہتر سال (۷۱) سالوں سے موجود ہے ، ہر سال عید میلاد النبی کے موقع پر با ضابطہ زیارت ک کرواء جاتی تھی لیکن ۲۰۱۵ میں عید میلادالنبی کے موقع پر کمیٹی والوں نے زیارت نہیں کروائی اور لوگوں میں یہ کہا کہ اس کی کوئی سند اور ثبوت نہیں ہے ۔ عرض یہ ہے کہ کیا اکہتر سالوں سے جس موئے مبارک کی عام زیارت کروائی جاتی تھی عوام و خواص بھی زیارت کرتے اور مانتے تھے ۔ اب سند نہ ہونا کہہ کر یکسر موئے مبارک کو مشکوک سمجھنا ، سند تلاش کرنا اور زیارت سے روک دینا شرعاً درست ہے ؟ کیا آثار مبارک کو ثابت کرنے کے لئے سند اور ثبوت کی ضرورت ہے ؟ شریعت کی روشنی مدلل و مفصل جواب عنایت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔

    جواب نمبر: 145536

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 241-271/Sn=4/1438

     

    اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آثار وتبرّکات چھوڑے ہیں، چنانچہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر احرام سے ”حلال“ ہونے کے لیے حلق کرانے کے بعد اپنے موئے مبارک صحابہٴ کرام کے درمیان تقسیم فرمادیے تھے، اس طرح نعلین اور زیب تن کیے ہوئے کپڑے بھی چھوڑے ہیں، اگر یہ آثار مستند طریقے پر مل جائیں تو حدِّ شرع میں رہتے ہوئے ان کی تعظیم وتکریم بلاشبہ باعث ثواب ہے؛ لیکن ان کی پشت پر اگر کوئی سند نہیں ہے تو اس سے بچ کر ان سے کنارہ کش ہوجانا چاہیے، چناں چہ ”مسلک علمائے دیوبند“ میں ہے: ”اگر آثارِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے موئے مبارک، پیراہن مبارک اور نعلین کا ایک تسمہ بھی مستند طریقے پر مل جائے تو ہم اسے بادشاہوں کے تاج اور دنیا کی تمام بیش بہا دولت سے کہیں زیادہ بڑھ کر دولت سمجھتے ہیں، غیر مستند ہوں تو بے ادبی سے بچ کر بے سند چیزوں سے کنارہ کش ہوجانا ضروری سمجھتے ہیں“۔ (مسلک علمائے دیوبند، ص: ۳۰، ۳۱، موٴلفہ حضرت حکیم الاسلام رحمة اللہ علیہ)؛ البتہ مستند ہونے کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں کہ نصف یا ایک صدی سے کسی آثار مثلاً ”موئے مبارک“ کی زیارت کی جارہی ہو؛ بلکہ خیر القرون تک اس کا سلسلہ پہنچنا ضروری ہے؛ اس لیے آپ کے شہر ”چکمگلور“ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب جو ”بال“ ہے اگر اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف انتساب کے سلسلے میں اکہتر سال سے اس کی زیارت کے معمول کے علاوہ کوئی سند نہیں ہے تو محض اتنی مدت سے اس کی زیارت کے معمول کی بنا پر یہ یقین کرنا جائز نہ ہوگا کہ یہ ”بال“ واقعةً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہیں اور نہ اس اعتقاد کے ساتھ اس کی زیارت درست ہے؛ لہٰذا کمیٹی والوں کا عمل بالکل درست اور شریعت کے مطابق ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند