• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 10678

    عنوان:

    رشید احمد گنگوہی صاحب نے اپنی کتاب امدادالسلوک ص:10پر لکھا ہے?مرید کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ پیر کی روح ایک جگہ مقید نہیں ہوتی۔ مرید جس جگہ بھی ہو چاہے دور ہو یا نزدیک اگر چہ مرید ذہنی طور پر پیر کے جسم سے دور ہے لیکن پیر کی روحانیت اس سے دور نہیں۔ یہ بات جان لینے کے بعد مرید ہر وقت پیر کی یاد دل میں رکھے اور قلبی تعلق اس سے ظاہر ہونا چاہیے اور ہر لمحہ اپنے پیر سے فائدہ حاصل کرتا رہے۔ مرید اپنے پیر کا محتاج ہوتا ہے۔ لہذا پیر کو اپنے قلب میں ظاہر جان کر ذہن سے اس سے طلب کرے تو پیر کی روح اللہ کے اذن سے ضرور القا کرے گی۔

    کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اولیاء اللہ بہ عطائے الہی حاضروناظر ہو سکتے ہیں اور اپنے مرید کے احوال پر مطلع بھی ہوتے ہیں؟ (۲)اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب حفظ الایمان ص:7پر لکھا ہے :بو یزید سے پوچھا گیا طے زمین کی نسبت تو آپ نے فرمایا یہ کہ کوئی چیز کمال کی نہیں، دیکھو ابلیس مشرق سے مغرب تک ایک لحظہ میں کرجاتا ہے۔ کیا اس سے ثابت نہیں کہ شیطان لعین ایک لمحہ میں مشرق و مغرب میں موجود او رحاضر و ناظر ہو سکتا ہے........

    سوال:

    رشید احمد گنگوہی صاحب نے اپنی کتاب امدادالسلوک ص:10پر لکھا ہے?مرید کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ پیر کی روح ایک جگہ مقید نہیں ہوتی۔ مرید جس جگہ بھی ہو چاہے دور ہو یا نزدیک اگر چہ مرید ذہنی طور پر پیر کے جسم سے دور ہے لیکن پیر کی روحانیت اس سے دور نہیں۔ یہ بات جان لینے کے بعد مرید ہر وقت پیر کی یاد دل میں رکھے اور قلبی تعلق اس سے ظاہر ہونا چاہیے اور ہر لمحہ اپنے پیر سے فائدہ حاصل کرتا رہے۔ مرید اپنے پیر کا محتاج ہوتا ہے۔ لہذا پیر کو اپنے قلب میں ظاہر جان کر ذہن سے اس سے طلب کرے تو پیر کی روح اللہ کے اذن سے ضرور القا کرے گی۔

    کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اولیاء اللہ بہ عطائے الہی حاضروناظر ہو سکتے ہیں اور اپنے مرید کے احوال پر مطلع بھی ہوتے ہیں؟ (۲)اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب حفظ الایمان ص:7پر لکھا ہے :بو یزید سے پوچھا گیا طے زمین کی نسبت تو آپ نے فرمایا یہ کہ کوئی چیز کمال کی نہیں، دیکھو ابلیس مشرق سے مغرب تک ایک لحظہ میں کرجاتا ہے۔ کیا اس سے ثابت نہیں کہ شیطان لعین ایک لمحہ میں مشرق و مغرب میں موجود او رحاضر و ناظر ہو سکتا ہے۔ تو انبیاء کرام اور اولیائے تو بدرجہ اولی کائنات میں تصرف اور آناً فاناً مختلف مقامات پر حاضر و ناظر ہوسکتے ہیں؟ نواب صدیق حسن بھوپالی نے اپنی کتاب مسک الخاتم صفحہ 243پر لکھا ہے کہ نمازی کو چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر جان کر التحیات میں سلام کریں اور یہ شعر لکھتے ہیں:

     عشق کی راہ میں دور و قریب کی منزل نہیں                       میں تم کو دیکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں

     برائے کرم تفصیل سے جواب دیجئے گا۔

    جواب نمبر: 10678

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 631=527/د

     

    ارواح چاہے کسی کی بھی ہو ، ولی یا عام انسان، وہ سب اپنی جگہوں میں زندہ ہیں، اور اللہ جس روح کو اجازت دیتا ہے وہ روح وہاں سے نکل کر دوسری جگہوں پر بھی جاتی ہے، اورمرید کو جو پیر کی یاد دل میں رکھنے کو کہا جاتا ہے وہ بہ طورِ علاج کے ہے، یعنی جس شخص کے دل میں وساوس ہوں تو شیخ کا تصور کرنے سے نفع ہوگا، کیوں کہ وہ محسوس بھی ہے اور محبوب بھی، یہ طریقہ متقدمین صوفیا اپنے مریدوں کو بتلایا کرتے تھے، متأخرین نے اس کو منع لکھا ہے اور بہ قول حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ یہی اولیٰ ہے، اور اس مسئلے سے حاضر و ناظر ہونا تو ثابت نہیں ہوتا، کیوں کہ روح جو القاء کرے گی وہ اللہ کی اجازت سے ہوگی اور وہ بھی صرف کسی ولی کی روح نہیں، اللہ عامی کی روح کو بھی اجازت دے سکتا ہے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے تالیفاتِ رشیدیہ میں جگہ جگہ ذکر کیا ہے کہ اولیاء اللہ یا انبیائے کرام کو حاضر وناظر جاننا شرک ہے۔ تو پھر ان مذکورہ بالا عبارت کا مطلب حاضر وناظر ہونا کیسے نکل سکتا ہے؟

    (۲) اور اللہ نے شیطان کو جو خصوصی مہلت اور طاقت دی ہے اس پر بھی اولیاء اللہ کو قیاس کرنا ایک بے کار بات ہے، اس سے عقیدہٴ حاضر و ناظر نکالنا لغو بات ہے، کیا شیطان کے اندر جو بات ہے وہ بدرجہٴ اولی انسان کے اندر ہو یہ کوئی ضروری نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی نقص کی بات ہے۔ اور رہا یہ عقیدہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر وناظر ہیں، غلط ہے۔ ہاں یہ تصور کرنا کہ آپ قبر میں زندہ ہیں اور فرشتے ہمارا درود وسلام پہنچاتے ہیں تو یہ درست ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند