معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 63751
جواب نمبر: 63751
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 321-316/N=4/1437 کمپنی کے لیے سامان خریدنے والا ملازم، سامان کی خریداری میں کمپنی کا وکیل ہوتا ہے اور اس کی ساری محنت اور دوڑ وھوپ کمپنی کے حق میں ہوتی ہے، دکان دار کے حق میں نہیں؛ اس لیے اس کا دکان دار سے اپنے لیے کمیشن لینا جائز نہ ہوگا، نیز (بوجہ وکیل) یہ عاقد ہوتا ہے اور متعاقدین میں سے کوئی دوسرے سے کمیشن نہیں لے سکتا اگرچہ اس کا عرف ہو، شامی (۷: ۹۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں ہے: قولہ: ”فأجرتہ علی البائع“ : ولیس لہ أخذ شییٴٌ من المشتري؛ لأنہ ھو العاقد حقیقة، شرح الوھبانیة، وظاھرہ أنہ لا یعتبر العرف ھنا؛ لأنہ لا وجہ لہ۔ شرح وہبانیہ (۲: ۷۸ مطبوعہ: الوقف المدني الخیري دیوبند) میں ہے: أن البائع لو باع العین بنفسہ بإذن صاحبھا لیس لہ أن یأخذ شیئاً من المشتري؛ لأنہ ھو العاقد حقیقة، ویجب الأجر علی البائع؛ لأنہ فعل بأمرہ۔ واللہ أعلم۔ اور مجمع الضمانات (النوع السابع عشر، ضمان الدلال ومن بمعناہ ص ۵۴ط دار عالم الکتب، بیروت) میں ہے: الدلال لو باع العین بنفسہ بإذن مالکہ لیس لہ أخذ الدلالة من المشتري إذ ھو العاقد حقیقة، وتجب الدلالة علی البائع إذ قبل بأمرالبائع۔ اور اگر اس کمیشن کو زیادہ خریداری کا انعام یا ثمن میں رعایت قرار دی جائے تو چوں کہ وکیل نے سامان کی خریداری کمپنی کے لیے کی ہے، نہ کہ اپنے لیے؛ اس لیے اس انعام یا رعایت کی حق دار کمپنی ہوگی نہ کہ وکیل (آپ کے مسائل اور ان کا حل جدید تخریج شدہ ۷: ۳۹۳، ۳۹۴، مطبوعہ: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)۔ اور کوئی ملازم کم پیسے دے کر زیادہ پیسوں کا بل بنواتا ہے اور بیچ کے پیسے اپنی جیب میں رکھ لیتا ہے تو یہ بلا شبہ کمپنی کی چوری اور کمپنی کے ساتھ دھوکہ دہی ہے، جو شریعت اسلام میں قطعاً حرام وناجائز ہے۔ اور کسی مسلمان کے لیے ایسا بل بنانا بھی درست نہیں، قال اللّٰہ تعالی: ﴿ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان ﴾ (سورہ مائدہ، آیت: ۲)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند