• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 609871

    عنوان:

    والدہ کی خدمت گیری اوران پر خرچ کرنے کا حکم

    سوال:

    سوال : میں جب 7 سال کا تھا تو والد نے میری والدہ کو طلاق دیدی تھی۔ وجہ یہ معلوم ہوئی کہ والد صاحب کی توجہ دوسری شادی کی طرف تھی اور اسی دوران والدہ ایک بڑی غلطی کی مرتکب ہوئیں۔ والدہ اور ہماری دادی دادا کے تعلقات اچھے نہیں تھے اور انکا ٹوکنا والدہ کو اچھا نہیں لگتا تھا تو تنگ آکر اُنہوں نے اپنی سگی بہن (میری خالہ) کے ساتھ مل کر اُن کی دوا میں کیڑے مار دوا شامل کردی تھی جس کی وجہ سے دادا اور دادی کی کافی طبیعت خراب رہنے لگی تھی ۔ یہ بات کتنی حد تک سچ ہے یہ میں نہیں جانتا اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کیوں کہ میں اس وقت ندان تھا جب کہ میری بڑی بہن سمجھدار تھیں۔ اُنہوں نے مجھے یہ معاملہ بتایا ہے ۔ اور یہ بات جب کھلی تو اس دوران والد صاحب بھی دوسرا نکاح کرچکے تھے ۔ والد صاحب نے میری والدہ کو طلاق دیدی اور ان کو خالہ کے گھر چھوڑ آئے ۔ اس سب کے بعد ہم تینوں کی پرورش والد اور دوسری والدہ نے کری۔ جبکہ دوسری جانب کبھی کبھی والدہ چھپ کر بھی ملتی تھی۔ پھر وقت گزرتا گیا اور والدہ سے رابطہ بالکل منقطع ہوگیا۔ والدہ نے بھی دوسری شادی کرلی تھی جس کی وجہ وہ یہ بتاتی ہیں کوئی بھی ان کو اپنے گھر رکھنے کو تیار نہیں تھا تو مجبوراً شادی کرنا پڑی۔ ہماری پرورش میں بھی بہت زیادتی ہوئی۔ دوسری شادی کے بعد والد صاحب نے ہم سے توجہ ہٹالی بس تعلیم جاری رکھی۔ اب میری والدہ کو اپنے دوسرے شوہر سے بھی طلاق ہوگئی اور مامو کے گھر مقیم ہیں۔ ان سے رابطہ رہتا ہے ۔ مجھے معلوم یہ کرنا ہے کیا میرا اب اپنی امی پر حق ہے یہ اُن کا مجھ پر حق ہے ۔ کیوں کہ مامو کہتے ہیں تم پر فرض ہے تم اپنی امی کی امداد کرو۔

    برائے مہربانی میری رہنمائی کریں۔

    جواب نمبر: 609871

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 950-177/TL-7/1443

     والدین كے ساتھ حسنِ سلوك كرنے ، خبر گیری كرنے اور ان كی ضروریات پوری كرنے كی احادیث میں بہت تاكید آئی ہے ؛ لہذا آپ كو بھی چاہیے كہ آپ اپنی والدہ كی خبر گیری كریں ، ان كے ساتھ حسن سلوك كریں اور ان كی راحت رسانی كی فكر كریں ، اور اگر آپ كی والدہ محتاج ہیں اور آپ صاحب حیثیت ہیں تو ان كی مالی مدد كرنا بھی ضروری ہوگا۔

    {وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا} [الإسراء: 23]عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال: «أمك» قال: ثم من؟ قال: «ثم أمك» قال: ثم من؟ قال: «ثم أمك» قال: ثم من؟ قال: «ثم أبوك».[صحيح البخاري ، رقم: 5971، باب: من أحق الناس بحسن الصحبة]الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي.[الفتاوى الهندية 1/ 543](و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة)... (النفقة لأصوله) ولو أب أمه ذخيرة (الفقراء).[الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 3/ 621]


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند