• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 60829

    عنوان: سودي سرمايه تجارت ميں لگانے والی كمپنی میں كام كرنا

    سوال: ہمارے یہاں سعودی عرب میں اکثر کمپنیوں کا سرمایہ جو تجارت میں لگا یا جاہے وہ بینک سے سود کی بنیاد پر ہوتاہے، حالانکہ نام تو اسلامی بینک ہوتاہے مگر اکثر سودی ریٹ طے ہوتاہے، اور میں بھی ایک کمپنی میں کام کرتاہوں، کمپنی کا ملازم ہوں، ماہانہ تنخواہ پر ، کیا اس کمپنی میں کام کرنا صحیح ہے؟ یہ سودی کی کمائی تو نہیں ہے؟ ا ب میں کیا کروں ؟ براہ کرم، رہنائی فرمائیں۔ (۲) اسی طرح میں ایک گاڑی خریدنا چاہتاہوں، مگر گاڑی کی کمپنیاں سود کے بغیر گاڑی کو قسطوں پر دینے کے لیے تیار نہیں ۔ اب کوئی حل بتائیں کہ شریعت جس طرح اجازت دے اس طرح میں گاڑی خرید سکوں۔ جزاک اللہ ۔

    جواب نمبر: 60829

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 762-727/Sn=11/1436-U اگر کمپنی کا کاروبار فی نفسہ حلال ومباح ہے تو اس میں ملازمت کرنے کی گنجائش ہے؛ اس لیے کہ اگر کمپنی سودی قرض لیتی ہے تو بلاشبہ یہ ناجائز اور حرام ہے،جس کا ذمے داروں کو سخت گناہ ہوگا؛ لیکن اس سرمایہ (جو قرض مع سود کی شکل میں دیا گیا) سے جو کاروبار شروع کیا گیا اس میں کوئی خبث نہیں ہے، اس کی آمدنی حلال ہے۔ وأما حکم القرض فہو ثبوت الملک للمستقرض في القرض للحال وثبوت مثلہ في ذمّة المستقرض․․․ إلخ (بدائع الصنائع: ۶/۵۱۹، ط: زکریا) وانظر: امداد الفتاوی، ۳/ ۱۶۹، سوال: ۲۲۴، ط: زکریا) گاڑی کی کمپنی یا شوروم سے اگر آپ اس طرح معاملہ کرلیں کہ وہ منافع اور سود شامل کرکے ایک متعینہ قیمت پر آپ کے ہاتھ گاڑی ادھار بیچ دے، پھر آپ گاڑی کی وہ قیمت قسطوار ادا کردیں تو یہ معاملہ شرعاً صحیح ہے، کمپنی قسطوں میں فروخت کرنے کی وجہ سے نقل کے مقابل جو زیادہ قیمت وصول کرے گی شرعاً وہ سود نہیں ہے؛ بلکہ قیمت ہی کا ایک حصہ ہے اگرچہ کمپنی اسے سود کا نام دے۔ اگر بینک یا فینانس کمپنی سے ”لون“ لے کر گاڑی خریدیں گے تو پھر یہ سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند