معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 60829
جواب نمبر: 60829
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 762-727/Sn=11/1436-U اگر کمپنی کا کاروبار فی نفسہ حلال ومباح ہے تو اس میں ملازمت کرنے کی گنجائش ہے؛ اس لیے کہ اگر کمپنی سودی قرض لیتی ہے تو بلاشبہ یہ ناجائز اور حرام ہے،جس کا ذمے داروں کو سخت گناہ ہوگا؛ لیکن اس سرمایہ (جو قرض مع سود کی شکل میں دیا گیا) سے جو کاروبار شروع کیا گیا اس میں کوئی خبث نہیں ہے، اس کی آمدنی حلال ہے۔ وأما حکم القرض فہو ثبوت الملک للمستقرض في القرض للحال وثبوت مثلہ في ذمّة المستقرض․․․ إلخ (بدائع الصنائع: ۶/۵۱۹، ط: زکریا) وانظر: امداد الفتاوی، ۳/ ۱۶۹، سوال: ۲۲۴، ط: زکریا) گاڑی کی کمپنی یا شوروم سے اگر آپ اس طرح معاملہ کرلیں کہ وہ منافع اور سود شامل کرکے ایک متعینہ قیمت پر آپ کے ہاتھ گاڑی ادھار بیچ دے، پھر آپ گاڑی کی وہ قیمت قسطوار ادا کردیں تو یہ معاملہ شرعاً صحیح ہے، کمپنی قسطوں میں فروخت کرنے کی وجہ سے نقل کے مقابل جو زیادہ قیمت وصول کرے گی شرعاً وہ سود نہیں ہے؛ بلکہ قیمت ہی کا ایک حصہ ہے اگرچہ کمپنی اسے سود کا نام دے۔ اگر بینک یا فینانس کمپنی سے ”لون“ لے کر گاڑی خریدیں گے تو پھر یہ سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے شرعاً جائز نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند