معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 607968
دو چار منزلہ مکان بنانے میں پردہ کے سلسلہ میں پڑوسیوں کا خیال رکھنا
اکثر لوگ بڑے بڑے گھر بناتے ہیں لیکن نہ اپنے پردہ کا خیال کرتے ہیں نہ ہی ہمسایوں کا۔ اپنے گھر کی کھڑکیاں کھلی رکھتے ہِیں جس سے چھوٹے گھروں کی بے پردگی ہوتی ہے ، کیا یہ حقوق العباد کی حق تلفی نہیں ہے ؟ مفصل جواب کی درخواست ہے ۔
جواب نمبر: 607968
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:230-219/H-Mulhaqa=5/1443
آج کل شہروں اور قصبات میں دو، تین منزلہ یا اس سے بھی بڑی عمارت کی تعمیر لوگوں کی ایک ضرورت ومجبوری ہوتی جارہی ہے؛ کیوں کہ فیملیاں بڑھ رہی ہیں اور زمینوں کی قیمت گراں سے گراں ترہورہی ہے، نیز مہنگائی اور معیار زندگی بلند ہوجانے کے باعث ذریعہ معاش کے طور پر کرایہ کے فلیٹس بنانا بھی ایک طرح کی ضرورت ہے، اور دوسری طرف پردہ کے باب میں پڑوسیوں کا خیال بھی اہم وضروری ہے؛ لہٰذا کئی منزلہ عمارت کی تعمیر میں کھڑکیاں رکھنے میں پڑوسیوں کا خیال رہنا چاہیے، یعنی: کھڑکیاں اس انداز کی بنائی جائیں کہ پڑوسیو ں کے مکانات کی بے پردگی نہ ہو، مرد حضرات کھڑکیوں سے دوسروں کے مکانات کی طرف تانک جھانک نہ کریں، یا کھڑکیوں پر کوئی ایسا پردہ ڈال دیا جائے کہ ہوا آتی رہے اور پڑوسیوں کے مکانات کا اندرون حصہ نظر نہ آئے، اور پڑوس والوں کو بھی چاہیے کہ اُن کی خواتین گھر کے صحن میں دوپٹہ کے ساتھ آئیں، ننگے سر نہ آئیں وغیرہ وغیرہ۔
المادة: ۱۲۰۲: روٴیة المحل الذي ھو مقر النساء کالمطبخ وباب البئر وصحن الدار یعد ضرراً فاحشاً، فإذا أحدث أحد في دارہ نافذة أو بنی مجدداً بناء وفتح فیہ نافذة علی المحل الذي ھو مقر نساء جارہ الملاصق أو جارہ المقابل الذي یفصل بینھما طریق وکان یری مقر نساء الآخر منہ، فیوٴمر برفع الضرر ویکون مجبوراً علی دفع ھذا الضرر بصورة تمنع وقوع النظر إما ببناء حائط أو وضع ستار من الخشب؛ لکین لا یجبر علی سد النافذة علی کل حال کما إذا عمل حائطاً من الأغصان التي یری من بینھا مقر نساء جارہ؛ فإنہ یوٴمر بسد محلات النظر ولا یجبر علی ھدمہ وبناء حائط محلہ (أنظر مادة: ۲۲) (مجلة الأحکام العدلیة مع درر الحکام لعلي حیدر، کتاب الشرکة، الباب الثالث المسائل المتعلقة بالحیطان والجیران، المعاملات الجواریة والضوابط الثلاثة في حق الضرر الفاحش، ۳: ۲۱۹، ط: دار عالم الکتب للطباعة النشر والتوزیع، الریاض)۔
المادة: ۱۲۰۳: إذا کانت لأحد نافذة في محل أعلی من قامة الإنسان فلیس لجارہ أن یطلب سدھا لاحتمال أنہ یضع سلماً وینظر إلی مقر نساء ذلک الجار، أنظر المادة: ۷۴ (المصدر السابق، ص: ۲۲۲)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند