• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 604917

    عنوان:

    كیا اولاد کی اولاد میں بھی برابری کا حکم ہے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام ذیل میں 1-زید کا انتقال 19/2/1983 میں ہوا جو مشترکہ تجارت میں شریک تھے اور وہ مقروض بھی تھے جس کی ادائیگی انھیں کے ترکہ سے ادا کردی گئی اور بقیہ ترکہ 1998 میں جملہ وارثین کے درمیان شریعت کے مطابق تقسیم کردیا گیا،۔25 فروری 1983 میں زید کی اہلیہ اسی مشترکہ کاروبار میں اپنا ذاتی سرمایہ داری لگاگر شریک بن گئی۔اور یہ شرکت وراثت کی بنیاد پر نہیں رہا جیسا کہ مشترکہ کاروبار کے شرکت نامہ کے جز نمبر 10اور 13کے تحت لکھا گیا ہے کہ کوئی شریک اپنی شرکت منسوخ کرنے اور وفات پانے کی صورت میں ان کے ورثاء کو تجارتی شرکت(partner),تجارتی نام (brand),شہرت(Goodwill),تجارتی نشانی (Trade Mark),تجارتی اثاثہ (Asset) میں کوئی حق نہ ہوگا،اگر شریک قرض دار ہے تو ورثاء سے وصول کیا جائے گا،اگر سرمایہ ہے تو شریعت کے مطابق ورثاء میں تقسیم کردیا جائیگا۔ لہذا زید کی اہلیہ مستقل طور پر شریک کاروبار بنیں،پھر وہ شرکت کے منافع سے اپنے اولادوں کی پرورش اور شادیاں کیں،اپنی ذاتی ضروریات میں خرچ کرتی آرہی ہیں۔ اس دوران وہ نواسے اور نواسیاں،پوتے اور پوتیاں کی شادیوں میں گراں قدر تحفہ دیتی ہیں *اب سوال یہ ہے کہ زید کی اہلیہ کی اولاد میں کسی کی کم اور کسی کی زیادہ اولاد ہیں تو کیا ہر ایک کو یکساں رقم کے تحفے دینا شرعاً ضروری ہے ؟*(مثلآ کسی کی ایک اولاد ہو اورکسی کے پانچ ہوں تو کیا ایک اولاد والی کو بھی پانچ اولاد والی کے بقدر پانچ گنا زیادہ دینا ہے یا ہر نواسہ نواسی پوتا پوتی کو یکساں تحفہ دیں خواہ اولاد ایک ہوں یا زیادہ) 2-نیز زید کی اہلیہ کو اپنی شرکت سے ملنے والے منافع،زید کے ترکہ کے حصوں کے مطابق زید کے وارثین میں تقسیم کرنا ضروری ہے یا وہ زید کی اہلیہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکتی ہیں؟ بینواتوجروا

    جواب نمبر: 604917

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 806-807/M=12/1442

     (۱) اولاد کی اولاد (پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں) کو تحفہ، تحائف دینے میں مساوات (برابری) لازم نہیں، کم زیادہ دینے کی گنجائش ہے۔

    (۲) زندگی میں زید کی اہلیہ، اپنی کمائی کو خرچ کرنے میں خود مختار ہے، اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکتی ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند