• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 604679

    عنوان:

    مشتركہ خریدی گئی زمین كا بٹوارہ؟

    سوال:

    ہم دو بھائیوں نے ایک زمین مشترکہ طور پر خریدی تجھی مکان بنانے کے لیے جس کی پیمائش تقریباً سو فٹ چوڑی اور پانچسو فٹ لمبی ہے ، (زمیں کا اگلا حصّہ سڑک کے کنارے پر ہے جس کی ویلیو زیادہ ہے ار پچھلے حصہ کی طرف کسی اور کا مکان ہے اور ادھر حد پوری ہوجاتی ہے کوئی اور راستہ نہیں پڑتا )جب میرے مکان بنانے کی باری آئی تو میں نے بھائی سے کہا کہ زمین برابر دو حصوں میں آدھی آدھی تقسیم کرلیتے ہیں تاکہ دونوں کو آگے اور پیچھے دونوں طرف کی برابر زمیں ملے اور کسی کو راستہ کی تکلیف بھی نہ پیش آئے اور نہ ہی اگلے پچھلے حصہ کی قیمتوں کا فرق ، مگر اس صورت میں پریشانی یہ آرہی تھی کہ اگر سیدھے دو حصے کرتے ہیں تو چونکہ چوڑائی کم ہے اور لمبائی زیادہ ہے تو دونوں میں سے کسی کا بھی مکان بنگلہ ٹائپ نہیں بن سکتاتھا ؛ اس لیے بھائی سامنے سے ہی از راہِ خیر خواہی یوں کہا کہ زمین کے بیچ میں سے دو حصے کرلیتے ہیں اس طرح کر لیتے ہیں کہ ایک نصف اگلا حصہ اور دوسرا نصف پچھلا حصہ ( ایک تمہارا ، ایک میرا) اُس پر میں نے کہاکہ اگلے حصہ اور پچھلے حصہ کی ویلیو میں تو فرق ہوتاہے ؟ تو بھائی کہنے لگے کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے تم اگلے حصہ میں مکان بنالو اور میں پچھلے حصہ میں مکان بنالوں گا، البتہ مجھے پیچھے جانے کے بقدر تم راستہ کے لیے پندرہ فٹ جگہ اگلے حصہ میں سے چھوڑ دینا تاکہ میرا آنے جانے کا راستہ ہوجائے ، چنانچہ میں نے بھائی کے کہنے پر اگلا آدھا حصہ لے لیا اور پچھلا آدھا حصہ بھائی کو دیا ؛ اور اپنے حصہ میں سے پندرہ فٹ کے بقدر جگہ راستہ کے طور پر یہ سوچ کر چھوڑدی کہ میرا بھائی ہی تو ہے اور وہی تو رہے گا ؛ مگر ہوا یوں کہ میرے مکان بن جانے کے بعد بھائی کسی اور جگہ مکان بنا لیا اور یہ جگہ کسی اور کو بیچ دی ، اور اُس خریدار کو اپنے پورے نصف کے ساتھ میرے حصہ میں سے راستہ کے بقدر پندرہ فٹ کا بھی دستاویز بنوا کر دیدی ؛ تو میں نے بھائی سے اعتراض کیا کہ راستہ کے بقدر کی زمین میرے حصہ کی تھی لہٰذا اپتنے حصہ کی قیمت کا مالک میں ہوں جو مجھے ملنی چاہیے اور بھائی منع کر رہاہے اور یوں کہ رہاہے کہ تم اگلے حصہ میں ہو جس کی قیمت اور ویلیو بھی تو زیادہ ہے اُس میں سب آگیا (حالانکہ اُن کے کہنے پر میں اگلے حصہ میں گیا تھا ورنہ میں تو سیدھی لکیر کھینچ کر دو حصہ کا قائل تھا ) اب دریافت طلب امر یہ ہیکہ اُس راستہ کے بقدر کی جو جگہ میرے حصہ میں سے گئی ہے اُس کی قیمت کا حقدار کون ہوگا؟ اور اب اس مسئلہ کا کیا حل نکلے گا ؟

    بیّنوا توجروا دونوں بھائیوں کو جو بھی شرعِ متین سے فیصلہ آئیگا منظور ہے ۔

    جواب نمبر: 604679

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 956-279T/D=11/1442

     (۱) بھائی کی بات درست ہے جب آپ دونوں میں آپسی بٹوارہ میں سامنے کی زمین میں سے پندرہ فٹ زمین بھائی کے حصہ میں دیدی گئی تو بھائی پچھلے آدھے حصے کے ساتھ آپ کے حصے میں پندرہ فٹ زمین کا مزید مالک ہوگیا۔ مالک ہونے کے بعد جس طرح کا تصرف چاہے وہ کرسکتے ہیں۔

    (۲) زمین آپ کے حصے میں سے گئی لیکن پچھلے حصے کی وَیلو کم ہونے کی وجہ سے آپ نے اسے دے کر بٹوارہ کیا تھا پس اس پندرہ فٹ کے مالک بھائی ہوگئے۔

    البتہ انھیں کسی اجنبی کے ہاتھ فروخت کرنے سے پہلے آپ کی رضامندی لے لینی چاہئے تھی یعنی اگر آپ اس حصے کو خریدنا چاہتے تو آپ کو ترجیح دینا لازم تھا۔ کسی اجنبی کے آجانے سے آپ کو ضرر ہوگا اس لئے خریدنے میں آپ کو ترجیح دینا لازم تھا؛ بلکہ آپ کی مرضی کے بغیر اگر فروخت کردی گئی تو آپ کو فوراً حق شفعہ کے طور پر اس زمین کو قیمت دے کر لینے کا حق تھا جسے حق شفعہ کہتے ہیں اسلامی عدالت ہے نہیں کہ آپ اجنبی پر حق شفعہ کا مقدمہ دائر کرسکیں۔

    حاصل یہ کہ پندرہ فٹ زمین کے مالک بھائی تھے ان کا فروخت کرنا اور اس کی قیمت لینا جائز ہے پوری زمین پر البتہ آپ کو شرعاً حق شفعہ حاصل تھا جس کا مطالبہ آپ اجنبی خریدار سے کرسکتے تھے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند