معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 602824
کرائے کی دکان آگے کسی کو کرائے پر دینا
کیا فرماتے ہیں علماء دین مفتیان شرع متین ۔ کہ ایک شخص نے کسی بڑے شہر میں ایک دوکان 2لاکھ ایڈوانس دے کر لیا اور مالک سے اس بات پہ اتفاق ہوا کہ 5 ہزار مہینہ کے اعتبار سے ماخوذ(مائنس)ہوگا،لیکن پیشگی 2لاکھ دینے والے نے اس دوکان کو اپنے استعمال میں لانے کے بجائے کسی تیسرے کو 10 ہزار ماہانہ کیرایہ کے عوض دے دیا،5ہزار 2لاکھ سے ماخوذہورہاہے اور5ہزار اس شخص کو ہاتھ لگ رہا ہے جس نے 2لاکھ دے کر دوکان لیا ہے ۔تو کیاتیسرے شخص کو دوکان دے کر 5ہزار زائد رقم لینا صحیح ہے یا نہیں؟
جواب نمبر: 602824
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:541-221T/sn=8/1442
سوال میں یہ بات واضح نہیں ہے مذکور فی السوال دکان کا جوکرایہ متعین کیا گیا ہے یہ متعارف کرایہ ہے؟ یا پیشگی کرایہ ادا کرنے کی وجہ سے رعایتی کرائے پر دکان لی گئی؟ بہر حال اگر متعارف کرایہ تھا تو حکم میں تفصیل یہ ہے کہ اگر دکان میں کچھ اضافی کام کراکے آگے زیادہ کرائے پر دیا ہے تو شرعا اسں میں کوئی حرج نہیں ہے، اضافی رقم اس کے لئے حلال ہے، اگر کوئی کام وغیرہ نہیں کرایا ہے تو صورت مسئولہ میں اضافی کرایہ اس کے لئے حلال نہ ہوگا۔
باب ما یجوز من الإجارة وما یکون خلافا فیہا أی فی الإجارة (تصح) (إجارة حانوت) أی دکان. (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 9/ 37، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند)
(للمستأجر أن یؤجر المؤجر) بعد قبضہ قیل وقبلہ (من غیر مؤجرہ، وأما من مؤجرہ فلا) (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار) 9/ 125،مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند، الہند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند