• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 602575

    عنوان:

    درختوں کی شاخیں اگر پڑوسی کے حصے کی طرف پھیلنے لگیں تو کیا حکم ہے؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں؟ ایک شخص کے اپنے زمین پر مثمر درختوں کی باغ ھے جو کہ 100 سال سے پرانی درخت تھے ، یہ زمین ایک اور شخص کے ساتھ مشترکہ تھا، لیکن 23 سال قبل شرکاء نے زمین تقسیم کرلے ، تقسیم کے وقت، درخت کے تنے صاحب درخت کے زمین میں آگیا لیکن بعض شاخیں دوسرے شریک کی زمین میں آگیا، آن وقت دوسری شریک شاخیں کاٹنے کی مطالبہ نہیں کیا، اور شاخیں کاٹنے کی شرط بھی نہیں رکھتے ، اب 23 سال تقسیم کے بعد دوسرا شریک درخت کے شاخوں کے کاٹ کے مطالبہ کرتے ہے ۔ اور شرح مجلة الاحکام العدلیة للخالد الاتاسی المادة 1196 پر استدلال کرتے ہیں۔ اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ شاخیں اس کو کو ضرر رساں ے ۔ اور تصرف فی ملک غیر ہے ۔ لیکن ضرر کے نوعیت نہیں بتاتے ۔ اور لا ضرر ولا ضرار حدیث شریف پر بھی استدلال کرتے ہے ۔ صاحب درخت یہ بات نہیں مانتے ۔ وہ مجلة الاحکام العدلیة مادة 1171 پر استدلال کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ قضیہ 1171 مادة کا مصداق ہے ۔ 1196 مادة کے یہاں کسی تعلق نہیں ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ یہ درخت اور شاخیں بہت پرانی ہے ۔ منیر القاضی شرح مجلة الاحکام العدلیة 1196 مادة کے شرح میں لکھا گیا ہے کہ پرانی شاخیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ القدیم یترک علی قدمہا تیسری بات یہ ہے کہ منطقہ میں اکثر لوگوں کی شاخیں ایک دوسرے زمین پر آگیا ہے لیکن عرف عام میں درختوں کی شاخوں کے کاٹ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ منطقہ پہاڑی ہے درخت کے ثمرات اور حاصل زمین سے زیادہ ہے ۔ فلہذا نہیں کاٹ رہے ہیں۔ آخری بات یہ ہے کہ شاخوں کی کاٹنے سے زیادہ ضرر ہے اور اگر یہ شاخیں کاٹ کرلیا تو ساری علاقے میں جنگ جدل شروع کر ضرر عام آجاتی ہے ۔ اور ساری درخت کاٹ کر ان کے نقصان ساری عوام کو ملنا ہے ۔ محترم علمائے کرام آپ کے نظر بہت اہم ہیں ہمارے لئے ۔ شکریہ

    جواب نمبر: 602575

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:494-215T/L=1/1443

     مذکورہ بالا صورت میں مشترکہ باغ کو تقسیم کرتے وقت اگر شریک ثانی نے شاخوں کے کاٹنے کی کوئی شرط نہیں لگائی تھی اور نہ ہی ان شاخوں سے بظاہر کوئی نقصان ہورہا ہے نیز ان کے کاٹنے میں پورے علاقے میں جھگڑا وغیرہ کے ذریعہ ضرر عام کا بھی اندیشہ ہے جیسا کہ مستفتی کے بیان سے پتہ چل رہا ہے تو اب ۲۳سال کے بعد ان کے کاٹنے کا مطالبہ کرنا اور ضابطہ ۱۱۹۶سے استدلال کرنا درست نہ ہوگا ؛ کیونکہ ضابطہ نمبر ۱۱۹۶میں خود اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ اگر شاخوں کے باندھنے سے کام چل جائے تو ان کا کاٹنا کوئی ضروری نہیں، رہا مسئلہ صاحب درخت کی اس بات کا کہ یہ دونوں ضابطے الگ الگ ہیں اور ان دونوں کا مصداق ومحمل بھی الگ الگ ہیں اور شریک ثانی کا ضابطہ نمبر ۱۱۹۶کو ضابطہ نمبر ۱۱۷۱پر قیاس کرنا درست نہیں ہے تو ان کی یہ بات درست ہے اور ان کی اس بات کی تائید خود صاحب کتاب کی عبارت

    (ولا تقاس ھذہ المسئلة علی المسئلة الواردة الخ )سے ہورہی ہے (المادة 1171)اغصان الاشجار الواقعة فی حصتہ اذا کانت مدلاة علی الحصة الاخری فان لم یکن قد شرط قطعہا حین القسمة فلا تقطع جبرا علی صاحبہا لانہ استحق الشجرة با اغصانہا علی ہذہ الحالة(طحطاوی)(المادة1196)من امتدت اغصان شجر بستانہ الی دار جارہ اوبستانہ فلجارہ ان یکلف تفریغ ہوائہ بالربط او القطع...ولا تقاس ہذہ المسئلة علی المسئلة الواردة فی المادة 1171(شرح المجلة للمرحوم سلیم رستم باز اللبنانی:ج1ص656ط دار الکتب العلمیة) (۲) آپ نے اصول فقہ کا ضابطہ (القدیم یترک علی قدمہ)

    شاخوں کے نا کاٹنے کے سلسلے میں جو بطور استدلال پیش کیا ہے تو اولا اس کے سلسلے میں چند باتیں قابل غور ہیں ”اول الذکر“ یہاں قدامت سے مراد ایسی قدامت ہے کہ عام طور جس کے بارے میں بتانے والے لوگ نہ مل سکیں کہ یہ درخت کب لگائے گئے ہیں اور ۱۰۰سال یا اس سے کچھ زائد پرانے درخت اس زمرے میں نہیں آتے ؛ کیونکہ ان کے بارے میں ایسے لوگوں کا ملنا ممکن ہے جو ان درختوں کے بارے میں یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کب لگائے گئے ہیں ”ثانی الذکر“ یہ جو ممانعت ہے یہ اس وقت ہے جب کہ شریک کی بغیر رضامندی کہ ہو لیکن اگر شریک کی رضامندی سے کچھ تغیر وغیرہ کیا جائے تو اس کی گنجائش ہوگی جیسا کہ درج ذیل عبارت سے مستفاد ہورہا ہے

    الْقَدِیم: ہُوَ الَّذِی لَا یُوجد من یعرف أَولہ. (ر: الْمَادَّة / 166 / من الْمجلة) .وَمعنی ہَذِہ الْقَاعِدَة أَن الْمُتَنَازع فِیہِ إِذا کَانَ قَدِیما تراعی فِیہِ حَالَتہ الَّتِی ہُوَ عَلَیْہَا من الْقَدِیم، بِلَا زِیَادَة وَلَا نقص وَلَا تَغْیِیر وَلَا تَحْویل.وَإِنَّمَا لم یجز تَغْیِیر الْقَدِیم عَن حَالہ أَو رَفعہ بِدُونِ إِذن صَاحبہ لِأَنَّہُ لما کَانَ من الزَّمن الْقَدِیم علی ہَذِہ الْحَالة الْمُشَاہدَة فَالْأَصْل بَقَاؤُہُ علی مَا کَانَ عَلَیْہِ، ولغلبة الظَّن بِأَنَّہُ مَا وضع إِلَّا بِوَجْہ شَرْعِی (ر: الْفَتَاوَی الْخَیْرِیَّة، فصل الْحِیطَان) (شرح القواعد الفقہیة ص: 95)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند