• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 601698

    عنوان:

    بیوی کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا۔ بچوں کا نفقہ بچوں کے علاؤہ کسی اور جگہ استعمال کرنا

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں اپنے بیوی بچوں والد والدہ اور دو بہنوں کے ساتھ ایک مکان میں رہتا ہوں، مکان میرے والد صاحب کے نام پر ہے اور اس مکان میں تین فلور ہے ہر فلور میں ایک فلیٹ بنا ہوا ہے ، پہلے فلور میں میری والدہ اور دو بہنیں رہتی ہیں، گراؤنڈ فلور میں میرے والد رہتے ہیں اور تیسرے فلور میں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا ہوں اور جس میں میرے بیوی بچوں کا خرچہ راشن کچن اور بیت الخلاء وغیرہ سب الگ ہے میرے والدین اور بہنوں سے ، اب میری بیوی مجھ سے لڑ جھگڑ کر چلی گئی ہے اور اس کا مطالبہ یہ ہے کہ مجھے الگ گھر لے کر دو تو میں واپس آؤں گی جبکہ میرے والدین کی عمر اکہتر اور پچہتر سال اور اور دو بہنوں کی عمر اڑتالیس اور پچاس سال ہے اور میں اپنے والدین اور بہنوں کا اکیلا واحد کفیل ہوں ان کا دیکھ بھال خدمت وغیرہ کرتا ہوں تو کیا اس صورت میں میری بیوی کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا شرعاً جائز ہے؟ کیا میں اس مطالبہ کو پورا کرنے کا پابند ہوں ؟

    (۲) میری بیوی نے مجھ سے علیحدہ ہو کر عدالت میں کیس کردیا اور عدالت نے مجھ پر میرے بچوں کا نفقہ لازم کیا ہے کہ میں اپنے بچوں کا نفقہ خرچہ اپنی بیوی کو دوں، کیا اس طرح نفقہ لینا شریعت میں جائز ہ؟ اور یہ نفقہ اگر بچوں کے خرچ علاؤہ کسی اور چیزوں میں خرچ کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ مسئول: جواد

    جواب نمبر: 601698

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 326-245/D=05/1442

     تیسرے فلور میں آپ بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں اس کا کچن بیت الخلاء سب الگ ہے نیچے والوں کی ضرورت اس سے متعلق نہیں ہے تو اس قدر مکان کا انتظام کیا جانا آپ کی طرف سے کافی ہے۔ پھر والدین جو ضعیف العمر ہیں ان کی حاجات کا لحاظ کرتے ہوئے اس مکان میں رہنا آپ کے لئے واجب و ضروری ہے جب کہ بیوی کو اس میں کوئی پریشانی نہیں ہے پس اس کا علیحدہ مکان کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔

    وتجب لہا السکنی فی بیت خال عن أہلہ ․․․․․․ وبیت منفرد من دار لہ غلق ․․․․․․ ومفادہ لزوم کنیف ومطبخ وینبغي الإفتاء بہ ۔ (الدر المختار، ص: 270)

    (۲) بچوں کی عمریں کیا ہیں اس معاملہ کو مقامی مفتیان کی خدمت میں پیش کریں وہ حضرات زوجین کے بیانات سن کر مناسب راہنمائی کردیں گے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند