• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 601455

    عنوان:

    صلہٴ رحمی كی حدود كیا ہیں؟

    سوال:

    کن کن رشتہ داروں کے غم و خوشی میں شرکت ضروری ہے؟ ماں باپ کی حیات و وفات کے بعد ان کے کون کون سے رشتہ دار صلح رحمی کے حق دار ہیں؟ ہمارے ہاں اگر کسی کی وفات ہو جائے تو جنازے میں شرکت کے بعد تین دن تک دعا کو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی مصروفیت یا گھر دور ہونے کی وجہ سے دعا کے لئے نہ جا سکے تو کیا یہ قطع رحمی میں شمار ہو گا؟

    جواب نمبر: 601455

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:299-109/T/sd=8/1442

     (۱) اسلام میں مطلقا رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم دیا گیا؛ البتہ دور اور قریب کی قرابت کے اعتبار سے حکم میں فرق ہوگا اور صلہ رحمی کے لیے کسی شکل کو متعین نہیں کیا گیا ہے ، فقہاء نے لکھا ہے کہ سلام، کلام ، ہدیہ، معاونت، احسان ، ملاقات وغیرہ کے ذریعے تعلقات قائم رکھنے چاہییں، لہذاغم یا خوشی کے موقع پر ہی شریک ہونا لازم اور ضروری نہیں ہے ۔

    قال الحصکفی: (وصلة الرحم واجبة ولو) کانت (بسلام وتحیة وہدیة) ومعاونة ومجالسة ومکالمة وتلطف وإحسان ویزورہم غبا لیزید حبا۔ قال ابن عابدین: (قولہ وصلة الرحم واجبة) نقل القرطبی فی تفسیرہ اتفاق الأمة علی وجوب صلتہا وحرمة قطعہا للأدلة القطعیة من الکتاب والسنة علی ذلک قال فی تبیین المحارم: واختلفوا فی الرحم التی یجب صلتہا قال قوم: ہی قرابة کل ذی رحم محرم وقال آخرون. کل قریب محرما کان أو غیرہ اہ والثانی ظاہر إطلاق المتن قال النووی فی شرح مسلم: وہو الصواب واستدل علیہ بالأحادیث. نعم تتفاوت درجاتہا ففی الوالدین أشد من المحارم، وفیہم أشد من بقیة الأرحام وفی الأحادیث إشارة إلی ذلک کما بینہ فی تبیین المحارم۔ ( الدر المختار مع رد المحتار: ۴۱۱/۶، دار الفکر، بیروت )

    (۲)والدین کے جو بھی رشتہ دار ہوں ؛ بلکہ ان کے دوست و احباب کے ساتھ بھی اچھا سلوک رکھنا چاہیے ، حدیث میں ہے کہ باپ کے ساتھ حسن سلوک کا اعلی درجہ یہ ہے کہ ان کے چلے جانے کے بعد ان کے ساتھ تعلقات رکھنے والوں کے ساتھ حسن سلوک کرے ۔ ( مشکاة) صلہ رحمی کے سلسلے میں تفصیلات کے لیے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمة اللہ کا رسالہ صلہ رحمی مطالعہ کریں، رسالے کے آخر میں بہت جامع خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔

    (۳)جنازے میں شرکت کے بعد تین دن تک دعا کا التزام ثابت نہیں ہے ، اگر کوئی شخص اس دعا میں شرکت نہیں کرتا ہے ، تویہ قطع رحمی میں شمار نہیں ہوگا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند