• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 601131

    عنوان:

    ماں باپ دونوں کا انتقال ہوگیا تو بچی کی پرورش کا حق نانی کو ہوگا یا دادی کو؟

    سوال:

    مفتی صاحب عرض مسئلہ یہ ہے کہ میری ایک ۴سالہ بھتیجی ہے ، جس کے والدین کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے ، اب ۹سال تک بچی کی کفالت کی ذمہ داری شریعت کے مطابق تو اس کے نانا نانی کے ذمے ہے لیکن میرے والدین یعنی بچی کے دادا دادی اسے اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ حالات کے پیش نظر انھیں اندیشہ ہے کہ اسکے نانا نانی بچی کی صحیح پرورش اور اس کی اچھی تربیت کا خاص خیال نہیں رکھیں گے سو دادا دادی بچی کو ان کے حوالے کرنے پر بالکل بھی راضی نہیں ہے ۔

    اب میرا سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا صورتحال میں کیا شریعت میں اس بات کی گنجائش ہے کہ بچی کو اسکے نانا نانی کے سپرد نہ کرکے دادا دادی ہی اسکی پرورش کریں تاکہ بچی کا مستقبل بھی محفوظ رہے !؟

    براے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر شکریے کا موقع عنایت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 601131

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:199-129/N=4/1442

     اگر کسی بچی کی ماں کا انتقال ہوجائے تو اس کی پرورش کا حق نانی کو ہوتا ہے۔ اور اگر نانی انتہائی ضعیف وکمزور ہو کہ وہ بچی کی پرورش نہ کرسکے یا وہ بچی کی پرورش کے لیے تیار وآمادہ نہ ہو یا اس کا انتقال ہوجائے تو بچی کی پرورش کا حق دادی کو ہوتا ہے۔ پس صورت مسئولہ میں اگر بچی کی نانی، بچی کی پرورش کے لیے تیار وآمادہ ہے تو دادی زبردستی پوتی کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتی۔ اور رہا وہ خدشہ جس کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے تو اس کے لیے یہ تحقیق ضروری ہے کہ نانی کے پاس بچی کی صحیح پرورش وتربیت کیوں نہیں ہوسکتی؟ پھر ددھیال والے جو وجوہات بیان کرتے ہیں، وہ کہاں تک صحیح ہیں؟ اگر وہ وجوہات صحیح اور معقول ہوں تو اُن کے مطالبے پر غور کیا جاسکتا ہے۔ اور صورت مسئولہ میں جب بچی کے باپ کا بھی انتقال ہوگیا ہے تو بچی کا نان ونفقہ دادا پر واجب ہوگا، نانا پر نہیں؛ لہٰذا دادا پر ضروری ہوگا کہ بچی کی نانی کو بچی کا نفقہ پہنچاتا رہے، اس میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔

    وأما بیان من لہ الحضانة فالحضانة تکون للنساء في وقت وتکون للرجال في وقت، والأصل فیہا النساء؛ لأنہن أشفق وأرفق وأہدی إلی تربیة الصغار، ثم تصرف إلی الرجال؛ لأنہم علی الحمایة والصیانة وإقامة مصالح الصغار أقدر (بدائع الصنائع، ۳: ۴۵۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

    أحق الناس بحضانة الصغیر حال قیام النکاح، أو بعد الفرقة الأم … وإن لم یکن أم تستحق الحضانة بأن کانت غیر أہل للحضانة، أو متزوجة بغیر محرم أو ماتت، فأم الأم أولیٰ، فإن لم یکن للأم أم، فأم الأب أولیٰ ممن سواہا، وإن علت کذا في فتح القدیر،… فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم الخ (الفتاوی الھندیة، ۱: ۵۴۱، ط:المطبعة الکبری الأمیریة۔ بولاق، مصر)۔

    في جد لأم وجد لأب تجب علی الجد لأب فقط اعتباراً للإرث (رد المحتار، کتاب الطلاق، باب النفقة، ۵: ۳۵۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۰: ۶۳۸، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند