• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 600133

    عنوان:

    كیا قرض کی ادائیگی مالیت کے حساب سے درست ہے؟

    سوال: میرا ایک دوست مجھ سے 1000سعودی ریال ادھا لیتاہے جس کی پاک میں قیمت 40000 روپئے ہے، جب وہ مہینے کے بعد واپس کرتاہے تو اس وقت ریال کا ریٹ بڑھ کر 44000 روپئے ہوجاتاہے ، اب میرا دوست مجھے ریال کے برابر روپیہ دے گا یا 40000 روپیے ہی دے گا؟ براہ کرم، جواب دیں۔

     

    جواب نمبر: 600133

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:57-19T/sn=2/1442

     قرض میں اصل یہ ہے کہ جو کرنسی لی جائے وہی واپس کی جائے ؛ لہذا صورت مسئولہ میں اگر آپ کے دوست نے آپ سے ایک ہزار ریال قرض لیا ہے تو اس کے ذمے ایک ہزار ریال ہی لوٹانا واجب ہے ؛ باقی اگر وہ پاکستانی روپیے سے اس کا بدل ادا کرینا چاہے اور آپ اس کے لیے راضی ہیں تو وہ ادا کرسکتا ہے ، ایک ہزار ریال کے مقابلے میں پاکستانی جتنے روپیے ادائیگی کے دن آئے اتنا وہ ادا کردے ؛ باقی اگر کم وبیش پر رضامندی ہوجائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔

    والقرض ہو أن یقرض الدراہم والدنانیر أو شیئا مثلیا یأخذ مثلہ فی ثانی الحال، والدین ہو أن یبیع لہ شیئا إلی أجل معلوم مدة معلومة کذا فی التتارخانیة․ (الفتاوی الہندیة 5/ 366، الباب السابع والعشرون فی القرض والدین)

    (سئل) فی رجل استقرض من آخر مبلغا من الدراہم وتصرف بہا ثم غلا سعرہا فہل علیہ رد مثلہا؟ (الجواب) : نعم ولا ینظر إلی غلاء الدراہم ورخصہا کما صرح بہ فی المنح فی فصل القرض مستمدا من مجمع الفتاوی․ (العقود الدریة فی تنقیح الفتاوی الحامدیة 1/ 279، مطبوعة: دارالمعرفة، بیروت)

    (و) صح (بیع من علیہ عشرة دراہم) دین (ممن ہی لہ) أی من دائنہ فصح بیعہ منہ (دینارا بہا) اتفاقا، وتقع المقاصة بنفس العقد إذ لا ربا فی دین سقط (أو) بیعہ (بعشرة مطلقة) عن التقیید بدین علیہ (إن دفع) البائع (الدینار) للمشتری (وتقاصا العشرة) الثمن (بالعشرة) الدین أیضا استحسانا․ (الدر المختار وحاشیة ابن عابدین (رد المحتار7/531،باب الصرف، مطبوعة: مکتبة زکریا، دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند