• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 58690

    عنوان: بلا وجہ شرعی بائکاٹ کرنے والوں کے لیے قرآن و حدیث میں کیا حکم ہے ؟

    سوال: میں پاکستان سے ہوں ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہوے میرا آپ سے سوال ہے ۔ غلہ منڈی میں ایک سات رکنی یونین ہے اگر کوئی دکاندار انکے کسی حکم کو نہیں مانتا چاہے وہ درست ہے یا غلط تو اس کا بائکاٹ کردیا جاتا ہے یعنی کوئِی دکاندار اس دکاندار سے نہ کوئی مال خرید سکتا ہے نہ کوئِی بیچ سکتا ہے اگر کوئِی دکاندار اسکو مال بیچتا یا خریدتا ہے تو اسکا بھی بائکاٹ کر دیا جاتا ہے اکثر مال ادھار بکتا ہے اگر کوئی وقت پر رقم نہ دے سکے تو اسکا بھی بائکاٹ کر دیا جاتا ہے ایک دکاندار نے ایک رکن کو گالی دے دی تو اسکا بھی بائکاٹ کر دیا گیا جسکا بائکاٹ کیا جاتا ہے اسکا کاروبار تقریباًتباہ ہو جاتا ہے اس لیے ہر کوئی انکی درست ہے یا غلط بات ماننے پر مجبور ھوتا ہے ۔ (۱) کیا ایسا بائکاٹ کرنا شریعت کے لحاظ سے درست ہے (۲) اگر غلط ہے تو ان کے لیے کیا حکم ہے تفصیل سے وضاحت فرما دیں (۳) بلا وجہ شرعی بائکاٹ کرنے والوں کے لیے قرآن و حدیث میں کیا حکم ہے ؟

    جواب نمبر: 58690

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 790-782/L=6/1436-U قرآن واحادیث میں آپسی اتحاد پر حد درجہ تاکید آئی ہے، قال تعالی: ”وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا“ الآیة اور حدیث شریف میں ایک مومن کی حرمت وتعظیم کو کعبة اللہ کی حرمت وتعظیم سے بڑھ کر فرمایا گیا ہے، حدیث شریف میں ہے ”نَظَرَ رَسُولُ اللَّہِ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - إِلَی الْکَعْبَةِ فَقَالَ: لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ مَا أَطْیَبَکِ، وَأَطْیَبَ رِیحَکِ، وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً مِنْکِ، إِنَّ اللَّہَ جَعَلَکِ حَرَامًا، وَحَرَّمَ مِنَ الْمُؤْمِنِ مَالَہُ، وَدَمَہُ، وَعِرْضَہُ، وَأَنْ نَظُنَّ بِہِ ظَنًّا سَیِّئًا“ (مجمع الزوائد: ۳/۲۹۲) ایک حدیث میں مسلمان کو ناحق تکلیف پہنچانا ایسا ہے جیسا کہ بیت اللہ کو منہدم کرنا، ایک اور حدیث میں مومن کے قتل کو زوالِ دنیا سے بڑھ کر فرمایا گیا ہے: قال علیہ السلام: من آذی مسلمًا بغیر حق فگأنما ہدم بیت اللہ“ رواہ الطبرانی فی الصغیر وعن بریدة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: قتل الموٴمن أعظم عند اللہ من زوال الدنیا“ روایہ النسائی، اسی وجہ سے آپس میں صلح کرادینا افضل القربات میں سے ہے اور آپس میں بگاڑ پیدا کردینا اکبر الکبائر میں ہے ہے۔ قال علیہ السلام: ”ألا أخبرکم بأفضل من درجة الصیام والصلاة والصدقة قالوا: بلی قال: إصلاح ذات بین فإن فساد ذات البین ہي الحالقة وقال علیہ السلام: لا تباغضوا ولا تحاسدوا ولا تدابروا وکونوا عباد اللہ إخوانا“ مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں پتہ چلا کہ کسی مسلمان کا بلاوجہ شرعی معاشرتی بائیکاٹ کردینا جائز نہیں، ایسا کرنے والے سخت گنہ گار ہیں؛ البتہ اگر کوئی مسلمان علانیہ طور پر فسقیہ گناہ میں مبتلا ہو اور تنبیہ کے باوجود اصلاح پر آمادہ نہ ہو ایسے شخص کا اگر اصلاح کی نیت سے توبہ کرنے تک بائیکاٹ کیا جائے تو ان حدود وقیود کے ساتھ بائیکاٹ کی گنجائش ہوگی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند