معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 56827
جواب نمبر: 56827
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 83-49/Sn=2/1436-U قرض بلاشبہ حقوق العباد میں سے ایک حق ہے، قرض لینے والے (خواہ اشخاص ہوں یا ادارہ) پر ضروری ہے کہ حسب وعدہ قرض خواہوں کو ان کا قرض واپس کرے، اگر کوئی شخص وسعت کے باوجود قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتا ہے تو وہ سخت گنہ گار ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ظلم قرار دیا، ”مطلب الغني ظلم“ اگر کوئی قرض لینے کے بعد ٹال مٹول کرتا ہے، ادا نہیں کرتا تو قرض خواہوں کے لیے جائز ہے کہ جبرا وصول کریں، نیز بوقت ضرورت عدالت کا بھی سہارا لے سکتے ہیں، ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں نے ایک شخص کے بارے میں شکایت کی تو آپ نے اسکا تمام مال فروخت کردیا؛ تاکہ اس سے لوگوں کا قرض ادا کیا جائے، وروي أن معاذا کان یدان فأتی غرماؤہ إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فباع النبي صلی اللہ علیہ وسلم مالہ کلہ في دینہ حتی قام معاذ بغیر شیء․ (مشکاة المصابیح، باب الإفلاس والإنظار)؛ البتہ کوئی شخص یا ادارہ اگر تنگی کا شکار ہے؛ اس لیے وہ قرض نہیں ادا کرپارہا ہے تو اسے مہلت دینا بہت زیادہ باعثِ ثواب ہے، حدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے، ”من أنظر معسرا أو وضع عنہ أنجاہ اللہ من کرب یوم القیامة (أخرجہ مسلم، رقم: ۳۰۰۶، باب حدیث جابر إلخ) رہا مذکور فی السوال تو یہ معاملہ نزاعی اور دو فریقوں کے درمیان دائر ہے؛ اس لیے جب تک فریقین کی طرف سے متفقہ طور پر یہ وضاحت نہ کی جائے کہ مذکور فی السوال تنظیم کیا کام کرتی ہے؟ اس نے کس مقصد سے قرض لیا؟ تنظیم اور قرض خواہوں کے درمیان معاملے کے وقت کیا ایگریمنٹ ہوا تھا؟ اب تنظیم ٹال مٹول کیوں کررہی ہے؟ وغیرہ، تب تک صورت مسئولہ سے متعلق کوئی حتمی حکم نہیں لکھا جاسکتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند