• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 56657

    عنوان: چند سال پہلے زید نے اپنی ایک زمین پر دکانیں بنانے کے لئے چند لوگوں سے متعین قیمت پر مثلا ۲۵،لاکھ میں ایک دکان کی بکنگ لی تھی، اور یہ طے ہوا تھا کے کچھ رقم پہلے دینی ہوگی

    سوال: چند سال پہلے زید نے اپنی ایک زمین پر دکانیں بنانے کے لئے چند لوگوں سے متعین قیمت پر مثلا ۲۵،لاکھ میں ایک دکان کی بکنگ لی تھی، اور یہ طے ہوا تھا کے کچھ رقم پہلے دینی ہوگی ۔اور بقیہ رقم جب دکان تیار ہو جائے گی اس وقت دینی ہوگی مثلا ۳ لاکھ روپئے ابھی اور تین مہینہ کے بعد پھر تین لاکھ روپئے اور بقیہ پوری قیمت دکان پر قبضہ دینے کے بعد دینی ہوگی ۔چنانچہ خالد نے ایک دکان کی بکنگ کروائی اور دو مرتبہ پیسے یعنی تین تین لاکھ (۶ لاکھ ) روپئے بھی دے دئے مگر زید نے پانچ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے با وجود کوئی کام شروع نہیں کیا ٹال مٹول کرتا رہا ۔اب زید خالد سے کہتا ہے کہ مارکیٹ قیمت کے اعتبار سے اس دکان کا بھاؤ یعنی قیمت بڑھ گیا ہے (جبکہ دکان کا ابھی وجود نہیں ہے )اس لئے تم اپنے چھ لاکھ کی جگہ ۲۰ لاکھ روپیہ لیکر الگ ہوجاوٴ۔ تو کیا خالد کے لیئے ۲۰ لاکھ روپئے لینے کی شرعیت میں ہے یا خالد صرف چھ لاکھ کا ہی حقدار ہے ۔ یا زائد رقم بھی لے سکتا ہے جو آپس میں طے ہو جائے ۔ (۲) زید ان چھ لاکھ کے بدلے خالد کو دوسر ی جگہ تیار دکان یا فلیٹ دیتا ہے جس کی قیمت اب ۲۰ لاکھ کے قریب ہے تو چھ لاکھ کے بدلے د

    جواب نمبر: 56657

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 133-148/L=2/1436-U مذکورہ بالا صورت میں خالد کے لیے ۲۰/ لاکھ رقم لینا جائز نہ ہوگا، چھ لاکھ سے زائد رقم سود ہوگی؛ البتہ اگر زید چھ لاکھ کے بدلے دوسری جگہ تیار دوکان یا فلیٹ دیدے تو اس کے لینے کی گنجائش ہوگی، لأنہ لیس فیہ ربا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند