معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 52308
جواب نمبر: 52308
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 618-140/D=6/1435-U (۱) سوال میں معاملہ کی جو صورت مذکور ہے اس میں اگرچہ بہ ظاہر خرید وفروخت کا معاملہ ہورہا ہے، لیکن سوال سے ایسا لگتا ہے کہ درحقیقت عاقدین کے نزدیک بیع مقصود نہیں ہے، اسی لیے نہ تو مشتری کو زمین پر قبضہ دیا گیا اور نہ ہی اسے کسی دوسرے تصرف کا اختیار ہے، بلکہ درحقیقت یہ رہن، یا قرض سے انتفاع کی ایک شکل ہے اور فقہائے کرام کی صراحت کے مطابق رہن یا قرض سے انتفاع ناجائز ہے؛ لہٰذا سوال میں ذکر کردہ دونوں معاملے (خرید وفروخت اور کرایہ) شرعا ناجائز ہوں گے، رہا زید کا یہ کہنا کہ ہندوستان دارالحرب ہے، تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہندوستان کا دارالحرب ہونا خود علمائے کے مابین مختلف فیہ ہے اور سود کا استعمال بڑا سنگین گناہ ہے اس لیے بہرحال سودی معاملہ ناجائز ہوگا۔ (۲) یہ صورت بشرطیکہ مشتری زمین پر قبضہ کرلے، فقہائے کرام کی اصطلاح میں ”بیع وفا“ کہلاتی ہے، چنانچہ صاحب درمختار فرماتے ہیں: وصورتہ أن یبیعہ العین بألف علی أنہ إذا رد علیہ الثمن رد علیہ (۷/۵۴۵ زکریا) اکثر فقہائے احناف کے نزدیک اس طرح کا معاملہ کرنا ضرورةً جائز ہے، البتہ اس پر رہن کے جملہ احکام جاری ہوں گے، لہٰذا مشتری کے لیے مبیع (شئ مرہون) سے نفع حاصل کرنا درست نہ ہوگا، پس صورت مسئولہ میں اگر مذکور فی السوال شرط پر معاملہ کرتے ہیں تو جائز ہے مگر بشرطیکہ خریدار زمین سے کسی طرح کا نفع نہ اٹھائے ورنہ سود ہوجائے گا۔ (۳) کا جواب نمبر (۱) میں آگیا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند