• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 52308

    عنوان: زید نے غیر مسلم سے پچاس لاکھ روپئے میں اس شرط پر زمین خریدی کہ جب میرے پاس پیسے آوے تو یہ زمین پچاس لاکھ میں ہی تجھے مجھ کو لاٹانی پڑیگی تو کیا اس شرط کے ساتھ خریدنا جا ئز ہے ؟

    سوال: (۱) مسئلہ در پیش ہے امید ہے کہ قرآن،حدیث اور فقہ کی روشنی میں حوالہ اور عبارت کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں گے ۔ سوال:زید نے ایک زراعت کی زمین پچاس لاکھ روپئے کی غیر مسلم سے خریدی،پیسے دیدئے رجسٹری بھی کرالی،اس شرط پر کہ جب غیر مسلم کے پاس پچاس لاکھ روپئے آوینگے تو غیر مسلم زید کو پیسے دیدے گا اور اپنی زمین واپس لے لیگا ،اور جب تک پیسے نہیں دیگا وہاں تک ماہانہ زمین کا ۰۰۰،۵۰ہزار روپئے کرایہ دیگا ،زمین غیر مسلم کے قبضہ میں ہی ہے ،رجسٹری اگر چہ زید کے نام کرا دی ،تو کیا اس طرح معاملہ کرنا درست ہے ؟تو کیا زید اس طرح غیر مسلم سے ماہانہ کرایہ لے سکتا ہے ؟کسی نے زید سے منع کیا تو اس کا کہنا ہے کہ ہندوستان دار الحرب ہے ،برائے کرم مدلل جواب عطا فرمائے ۔ (۲) سوال : زید نے غیر مسلم سے پچاس لاکھ روپئے میں اس شرط پر زمین خریدی کہ جب میرے پاس پیسے آوے تو یہ زمین پچاس لاکھ میں ہی تجھے مجھ کو لاٹانی پڑیگی تو کیا اس شرط کے ساتھ خریدنا جا ئز ہے ؟ (۳) سوال: غیر مسلم نے زید سے اس زمین کو ماہانہ پچاس ہزار کرایہ پر لے لی حالانکہ اس علاقہ میں اتنی زمین کا کرایہ پچاس ہزار سالانہ چلتا ہے تو کیا اس طرح کرایہ پر دینا جا ئز ہے ؟ مسلہٴ مذکورہ میں غیر مسلم نے زید کو زمین کا قبضہ دیا ہی نہیں ہے ، صرف پیسے لیکر شرطیہ رجسٹری کرا لی ہے ، قبضہ غیر مسلم کا ہی ہے اور ماہانہ پچاس پزار روپئے کرایہ دیتا ہے ۔

    جواب نمبر: 52308

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 618-140/D=6/1435-U (۱) سوال میں معاملہ کی جو صورت مذکور ہے اس میں اگرچہ بہ ظاہر خرید وفروخت کا معاملہ ہورہا ہے، لیکن سوال سے ایسا لگتا ہے کہ درحقیقت عاقدین کے نزدیک بیع مقصود نہیں ہے، اسی لیے نہ تو مشتری کو زمین پر قبضہ دیا گیا اور نہ ہی اسے کسی دوسرے تصرف کا اختیار ہے، بلکہ درحقیقت یہ رہن، یا قرض سے انتفاع کی ایک شکل ہے اور فقہائے کرام کی صراحت کے مطابق رہن یا قرض سے انتفاع ناجائز ہے؛ لہٰذا سوال میں ذکر کردہ دونوں معاملے (خرید وفروخت اور کرایہ) شرعا ناجائز ہوں گے، رہا زید کا یہ کہنا کہ ہندوستان دارالحرب ہے، تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ ہندوستان کا دارالحرب ہونا خود علمائے کے مابین مختلف فیہ ہے اور سود کا استعمال بڑا سنگین گناہ ہے اس لیے بہرحال سودی معاملہ ناجائز ہوگا۔ (۲) یہ صورت بشرطیکہ مشتری زمین پر قبضہ کرلے، فقہائے کرام کی اصطلاح میں ”بیع وفا“ کہلاتی ہے، چنانچہ صاحب درمختار فرماتے ہیں: وصورتہ أن یبیعہ العین بألف علی أنہ إذا رد علیہ الثمن رد علیہ (۷/۵۴۵ زکریا) اکثر فقہائے احناف کے نزدیک اس طرح کا معاملہ کرنا ضرورةً جائز ہے، البتہ اس پر رہن کے جملہ احکام جاری ہوں گے، لہٰذا مشتری کے لیے مبیع (شئ مرہون) سے نفع حاصل کرنا درست نہ ہوگا، پس صورت مسئولہ میں اگر مذکور فی السوال شرط پر معاملہ کرتے ہیں تو جائز ہے مگر بشرطیکہ خریدار زمین سے کسی طرح کا نفع نہ اٹھائے ورنہ سود ہوجائے گا۔ (۳) کا جواب نمبر (۱) میں آگیا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند