• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 48814

    عنوان: ایك شخص كی ملکیت میں ایک 1947 سے دہلی میں کارپوریشن کا مکان ہے اب وہ اس کو بیچنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟

    سوال: محمد تقی جن کی ملکیت میں ایک 1947 سے دہلی میں کارپوریشن کا مکان ہے اب وہ اس کو بیچنے کا حق رکھتا ہے یا نہیں؟ کیوں کہ دہلی میں اس طرح کے مکان بحیثیت کرایہ دار کے ہوتے ہیں اور جو رہتے ہیں وہ کرایہ دیتے ہیں جو بہت تھوڑا ہے (پندرہ بیس روپئے) اور اس مکاں ن کی مرمت بھی ایم سی ڈی (میونسپل کارپوریشن ڈہلی) کرواتی ہے اگر ضرورت پڑتی ہے ، لیکن پھر بھی ایسے مکان کو لوگ بیچتے ہیں اور خریدتے ہیں ، اب محمد تقی نے اس مکان کو اپنے ایک بیٹے اور اپنے ایک پوتے کے نام کردیا ہے جن کے باپ کا انتقال ہوگیا ہے ، اب بہنیں اپنی میراث مانگتی ہیں تو محمد تقی کو اپنا مکان بیچنا جائز ہوگا یا نہیں؟ اور پھر اس میں بیٹیوں کا حصہ کس طرح دیا جائے گا، فی الحال اس میں محمد تقی اور ان کے بیٹے اور پوتے رہتے ہیں۔

    جواب نمبر: 48814

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1745-1371/B=1/1435-U مذکورہ مکان میں محمد تقی صرف رہائش کے حق دار ہیں، کارپوریشن کا وہ مکان ان کی شرعاً ملکیت نہیں، اس لیے اس کو فروخت کرنا درست نہیں اور نہ اپنے کسی بیٹے یا پوتے کے نام کرنا درست ہے، عوام کا ایسے مکانات فروخت کرنا دلیل جواز نہیں اور نہ بجائے خود درست ہے، کسی شخص کے زندہ رہتے اس کے مال سے اپنے حصہ وراثت کا مطالبہ جائز نہیں، خواہ مطالبہ کرنے والا بیٹا ہو یا بیٹی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند