• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 3950

    عنوان:

    برلا ٹائر کی ایک کمپنی ہے ، زید اس کی ایجنسی لینا چاہتاہے اور کمپنی کا قانون ہے کہ ایجنسی لینے والے کے پاس سے 200000 /روپئے ڈپوزٹ لیتی ہے اور اس ڈپوزٹ کی رقم پر سالانہ 30000 / ہزار روپئے سود یتی ہے نیز ہر ٹائر پر دوفیصد کمیشن دیتی ہے اور زید نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے لیے سود لینا جائز نہیں ہے ۔ لہٰذا 30000 / ہزار روپئے سود کے بجائے مجھے ہر ٹائر پر دو فیصد کی جگہ پانچ فیصد کمیشن دیجئے، تو کیا اس طرح سے شرعا ایجنسی لینا درست ہے یا نہیں؟

    سوال:

    برلا ٹائر کی ایک کمپنی ہے ، زید اس کی ایجنسی لینا چاہتاہے اور کمپنی کا قانون ہے کہ ایجنسی لینے والے کے پاس سے 200000 /روپئے ڈپوزٹ لیتی ہے اور اس ڈپوزٹ کی رقم پر سالانہ 30000 / ہزار روپئے سود یتی ہے نیز ہر ٹائر پر دوفیصد کمیشن دیتی ہے اور زید نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے لیے سود لینا جائز نہیں ہے ۔ لہٰذا 30000 / ہزار روپئے سود کے بجائے مجھے ہر ٹائر پر دو فیصد کی جگہ پانچ فیصد کمیشن دیجئے، تو کیا اس طرح سے شرعا ایجنسی لینا درست ہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 3950

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 159/ م= 159/ م

     

    کمپنی ہرٹائر پر دو فیصد جو ایجنسی لینے والے کو دیتی ہے، آیا وہ دولاکھ روپئے ڈپوزٹ کرانے ہی کی وجہ سے دیتی ہے یا وہ مطلقاً کمپنی کی طرف سے ایک رعایت ہے جو ہرایک کو حاصل ہوتی ہے، خواہ دو لاکھ روپئے ڈپوزٹ کرانا لازمی ہو خواہ کوئی سالانہ تیس ہزار روپئے سود اور دو فیصد کمیشن لے یا نہ لے، اگر پہلی صورت مراد ہے کہ دو لاکھ روپئے ڈپوزٹ کرانے ہی کی وجہ سے کمپنی ہرٹائر پر دو فیصد کمیشن دیتی ہے، پھر تو کمیشن دو فیصد ہو یا پانچ فیصد، کمیشن لینا بھی صحیح نہیں اور سود لینا تو کسی طرح درست نہیں، اور اگر ایسا نہیں ہے یعنی فیصدی رعایت کا معاملہ بالکلیہ الگ ہے، دو لاکھ ڈپوزٹ کرانا اگرچہ کمپنی کا لازمی قانون ہو لیکن اس کی وجہ سے کمیشن کا معاملہ طے نہیں ہوا، تو پھر ایسی صورت میں شرعاً اس کی اجازت ہے کہ وہ سالانہ تیس ہزار روپئے سود کے بجائے ہرٹائر پر دو فیصد کی جگہ پانچ فیصد کمیشن کے ساتھ ایجنسی کا معاملہ طے کرلے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند