معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 39244
جواب نمبر: 3924431-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1193-999/B=6/1433 ماں کو اپنی اولاد کے ساتھ فطری محبت ہوتی ہے، وہ ایسا نہیں کرسکتی، اگر بالفرض بقول آپ کے ایسا ماں نے کیا ہے اور بلاوجہ کیا ہے تو اللہ کے یہاں اس سے باز پرس ہوگی۔ مگر بیٹے کے ذمہ اپنی ماں سے بدلہ لینا، یا اس کو تکلیف پہنچانا یا کوئی سزا دینا جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
زید نے بکر سے کشتی کے لیے چھ لاکھ روپیہ
ادھار لیا او رکشتی خریدی۔ زید اب پابند ہے کہ سمندر میں سے جو مال لاتا ہے بکر کو
دے دے جس کی مارکیٹ کی قیمت ساٹھ روپیہ فی کلو ہے جب کہ بکر کو دیتا ہے پچاس روپیہ
فی کلو، کیوں کہ زید قرض دار ہے بکر کا۔ یہ دس روپیہ فی کلو سود ہے جو بکر لیتا ہے
زید سے صرف قرض کی بنیاد پر۔ لیکن اب زید کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ سود کی
لعنت سے بچنے کے لیے بکر کو سارا قرضہ دے دے اوراگر کشتی بھی بیچ دے تو کشتی کی قیمت
تقریباً چار لاکھ ہوگی۔ اب زید کے لیے کیا حکم ہے شریعت کی روشنی سے؟ (۲)اب اگر تھوڑا تھوڑا کرکے بکر کا سارا قرض
لوٹاتا ہے تو اب زید کشتی کا مالک بن جاتا ہے۔ اب سمندر میں سے جو مال لایا جاتا
ہے اس کے بارہ حصے کئے جاتے ہیں جس میں سے پانچ حصے زید (کشتی کا مالک، جن پر
مزدوں کا ان کی اپنی رضا مندی سے کوئی حق نہیں) کے ہوتے ہیں جب کہ باقی سات حصے
کشتی کے مزدوروں کو ملتے ہیں۔ ......
میں کراچی میں رہتاہوں ، پورے پاکستان میں موجودہ نامساعد حالا ت کی وجہ سے نقد رقم لے جانے کی کوئی اجازت نہیں دیتاہے، ڈاکوؤں اور چوروں سے مزاحمت کرنے پر بہت سارے لوگ قتل کردئے گئے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ انٹرینت کے ذریعہ کسی بھی چیز کا خرید نا بہت آسا ن ہوگیاہے، ان حالات میں کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرناجائزہے یا نہیں ؟ میں اپنے استعمال ہونے والے بہت سے سامان جیسے کمپیوٹر کے ساما ن وغیرہ نیٹ پر دیکھتاہوں، یہ سب سامان یا تومارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتے یا عا م طور پر نہیں ملتے ہیں۔ یہاں کوئی بھی اسلامی بینک کریڈٹ کارڈ پیش کش نہیں کرتاہے۔ اگر مجھے یہ استعمالرناہے تو یہ کسی ایسے بینک سے ہوسکتاہے جو جزئی یا کلی طور پر اسلامی بینک نہیں ہے ۔ براہ کرم، میری رہنمائی فرمائیں۔
میں دہلی میں گورنمنٹ نوکری میں ہوں میری آمدنی اتنی نہیں ہے کہ میں اپنا گھر خرید سکوں۔ کیا میں ہوم لون لے سکتا ہوں؟
434 مناظربرلا ٹائر کی ایک کمپنی ہے ، زید اس کی ایجنسی لینا چاہتاہے اور کمپنی کا قانون ہے کہ ایجنسی لینے والے کے پاس سے 200000 /روپئے ڈپوزٹ لیتی ہے اور اس ڈپوزٹ کی رقم پر سالانہ 30000 / ہزار روپئے سود یتی ہے نیز ہر ٹائر پر دوفیصد کمیشن دیتی ہے اور زید نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے لیے سود لینا جائز نہیں ہے ۔ لہٰذا 30000 / ہزار روپئے سود کے بجائے مجھے ہر ٹائر پر دو فیصد کی جگہ پانچ فیصد کمیشن دیجئے، تو کیا اس طرح سے شرعا ایجنسی لینا درست ہے یا نہیں؟
398 مناظرمیں کناڈا میں رہتاہوں۔ یہاں ایک کمپنی ہے جس میں یہ کام ہو رہا ہے:(۱) بجلی پاؤر سپلائی، (۲) ٹیلیفون سروس، (۳) ہوم سیکورٹی سروس (پہرادری کا معاوضہ) (۴) نیچرل گیس سپلائی، (۵) انٹرنیٹ سروس۔یہ کمپنی لوگوں کی نیٹ ورکنگ کی بنیاد پر چلتی ہے۔ اگر کوئی اس میں شریک ہونا چاہئے تو اسے ان طریقوں کو اپنانا پڑے گا: (۱) ۰۰،۵۰۰ڈالر فیس دے کر کمپنی کا ممبر بننا ہوگا، پھر اسے مزیدکم از کم دو ممبر بنانے ہوں گے ۔ (۲) اسے کمپنی کی مصنوعات کو فروخت کرکے یا خود خرید کرپانچ پائنٹ حاصل کرنا ہوگا ۔ (۳) اب دوسرے ممبروں کو بھی پہلے ممبر کے ماتحت پانچ پائنٹ حاصل کرنے کے لیے کمپنی کی مصنوعات کو فروخت کرنا ہوگا، اب پہلے ممبر کو کمشین ملنا شروع ہوگا۔ (۴) ا ن دوممبروں کو کمیشن اس وقت تک نہیں ملے گا جب تک وہ اپنے طورپر دو دو ممبر نہ بنا لیں اور ان بننے والے ممبروں کو پانچ پائنٹ حاصل کرنے کے لئے کمپنی کی پروڈکٹس کو بیچنا ہوگا۔یہی طریقہ ہر ایک ساتھ چلتا رہے گا۔ (۵) اب یہ ایک درخت ہے چونکہ بہت سے ممبر ان پہلے ممبر کے ماتحت ہوں گے، اس لیے ا سی حساب سے اس کمیشن بڑھے گا۔ یہ اسکیم کو پرکشش بنانے کے لیے ہے، کیونکہ یہ چھوٹی سی رقم ہے اور لوگ اس طرف کھینچے چلے آرہے ہیں۔ شرکاء اس رقم سے سینکڑوں ہزاروں روپئے کما سکتے ہیں۔یہ سب کمپنیاں مختصر مدت کے اندر زبردست منافع کے وعدہ کرکے اپنی اپنی اسکیموں کو چلاتی ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس بارے میں اسلامی حکم کیاہے؟
435 مناظر