• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 37648

    عنوان: وعدہ خلافی

    سوال: مجھے یہ جاننا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام کے کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور بعد میں وہ اس وعدہ کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس کے کے خلاف کوئی فعل کرتا ہے تو کیا ایسے میں اس شخص کو جھوٹا یا کذاب کہا جا سکتا ہے؟ مثال کے طور پر اگر وہ وعدہ کرے کہ میں فلاں شخص کو معاف نہ کروں گا اور بعد میں کسی وجہ سے معاف کر دے تو کیا وہ کذاب کہلائے گا؟

    جواب نمبر: 37648

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 712-396/L=5/1433 جھوٹ، زمانہٴ ماضی میں کسی کام کے ہونے کی غلط خبر دینا ہے، جب کہ وعدہ میں زمانہ مستقبل میں کسی کام کے کرنے کا عہد ہوتا ہے، گو وعدہ خلافی بھی کبھی حرام ہوجاتی ہے، لأن الخلف في الوعد حرام (الأشباہ والنظائر: ۳/ ۲۳۷) اور وعدہ کے بارے میں مسئول ہونا خود قرآن کریم میں مذکور ہے: ”اِنَّ العَعْدَ کَانَ مسْئُوْلاً“ واضح رہے کہ وعدہ خلافی کا گناہ اس وقت ہے جب کہ کسی امر منکر کا وعدہ نہ کیا جائے، اگر کسی ناجائز امر کا وعدہ کرلیا جائے تو اس کی خلاف ورزی گناہ نہیں ہے بلکہ اس کا خلاف کرنا مستحب ہے، فالمراد بالوعد في الحدیث الوعد بالخیر أما الشر فمستحب إخلافہ وقد یجب ما لم یترتب علی ترک إنفاذہ مفسدة․ (فتح الملہم: ۱/۲۳۴، ط: مکتبہ اشرفیہ) پس صورت مسئولہ میں اگر کوئی شخص وعدہ کرے کہ میں فلاں شخص کو معاف نہ کروں گا اور بعد میں کسی وجہ سے معاف کردے تو کذاب یا وعدہ خلاف نہیں کہلائے گا عن أبي ہریرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من حلف علی یمین فرأی خیرًا منہا فلیکفر عن یمینہ ولیفعل (مشکاة: ۲۹۶)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند