معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 31121
جواب نمبر: 3112101-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 516=616-4/1432 اگر رشتے دار کی طرف سے اجازت ہو تو اپنے قرض کی ادائیگی میں اس رقم کو استعمال کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
مفتی صاحب آپ کی
خدمت میں میرا یہ سوال ہے کہ ہمارے آفس میں ایک قانون ہے کہ ساڑھے سات بجے کے بعد
شام کا کھانا اوردوسری سہولیات کا الاؤنس ملتا ہے لیکن بوس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ
دے یا نہ دے۔ تو ایسی صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟(۲)دوسرا یہ کہ
جیسے ہم سب کو کام کر تے کرتے دس بج جائے او رہمارا حاکم ہمیں ڈنر نہ کروائے لیکن
ہم ڈنر کا بل بنا کر اکاؤنٹ آفس میں دے دیں او رڈنر کے پیسے لے کر آپس میں تقسیم
کر لیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟ (۳)تیسرا یہ کہ
ہمارے آفس میں گیارہ بجے کے بعد ٹیکسی کا کرایہ ملتا ہے لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا
ہے کہ ہم لوگ دس بج کر پچاس منٹ پر بھی چلے جاتے ہیں تو پھر ہم لوگ اپنے واوچر میں
گیارہ بجے یا اس سے زیادہ کا وقت لکھ کر ٹیکسی کا کرایہ لے لیتے ہیں تو کیا اس طرح
کرایہ لینا جائز ہو گا؟ اب میں آپ کو اخیر میں صحیح سے اپنا سوال سمجھا دیتا ہوں۔
(۱)دفتر کے قانون کے مطابق کام کیا جائے لیکن
پھر بھی کرایہ او رکھانا نہ ملے تو ایسی صورت حال میں ہم کو کیا کر نا چاہیے؟ (۲)ایسے
کھانے کے پیسہ کا مطالبہ کرنا جس کو کھایا ہی نہ گیا ہو توکیا وہ پیسہ جائز ہوگا؟
(۳)ایسا ٹیکسی کا کرایہ کہ جب ٹیکسی میں سفر
کیا ہی نہ گیا ہو یا گیارہ ہی نہ بجے ہوں تو کیا وہ پیسہ جائز ہوگا؟
پگڑی کے نام پر ایڈوانس رقم لینا
2792 مناظرکافی
دنوں پہلے دوسرے ملک کی کرنسی کا قرض کیسے ادا کریں
میں
سعودی عرب میں رہتاہوں۔ میرے کفیل (سعودی) کی ایک دوا کی دکان ہے جو میں ٹھیکہ پر
لینا چاہتاہوں۔ اس دکان سے ہر مہینے جو منافع ہوگا اس میں سے تین ہزار ریال کفیل
کو دے کر جو بچے گا وہ خود لینا ہے۔در اصل مسئلہ یہ ہے کہ سعودی میں خود اپنا
کاروبار نہیں کرسکتے۔ کیا میں ایسا کرسکتاہوں؟ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ میں اپنا پیسہ
لگا کر کفیل کے نام سے دکان کروں اوراس کو کفالت کے طور پر مہینے کا دو سو ریال کے
حساب سے دیا کروں، اس صورت میں پونجی او رمنافع دونوں میرا ہوگا۔ اس صورت میں
کفالت کے طور پر پیسہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ برائے کرم میری رہنمائی جلد سے جلد کریں۔
عبدالرحمن
اور کامران نے ایک کاروبار شروع کیا جس میں عبدالرحمن اپنی خدمات مہیاکرتا تھا اور
کامران صرف نقد پیسہ لگاتا تھا فیکٹری کے اس کاروبار میں۔اس کاروبار میں باہمی
رضامندی سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر ماہ چار ہزار روپیہ عبدالرحمن کو دیا جائے
گا، لیکن جب تک فیکٹری صحیح طریقہ سے نہیں چلے گی چھ سو روپیہ ہر ہفتہ عبدالرحمن
کو دیا جائے گا۔ اور بقیہ رقم جو کہ تقریباً ہر ماہ پندرہ سو روپیہ ہوتی ہے بعد
میں عبدالرحمن کو دی جائے گی۔اب فیکٹر ی بند ہوگئی ہے لیکن درج ذیل کے بارے میں
ایک فتوی کی ضرورت ہے۔(۱) فیکٹری
کے بند ہونے کی بڑی وجہ عبدالرحمن کا فیکٹری میں حاضر نہ ہونااور مناسب وقت نہ
دینا اور فیکٹری سے غیرحاضررہنا تھی۔ (۲)ہر ہفتہ چھ سو روپیہ عبدالرحمن کو
دیا گیا اب وہ مزیدہر ماہ پندرہ سو روپیہ کا تقاضا کررہے ہیں جب کہ فیکٹری بند
ہوچکی ہے۔(۳)فقہ
کے مطابق ہم کو اس ادائیگی اور اس معاملہ کو حل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟