معاملات >> دیگر معاملات
سوال نمبر: 27688
جواب نمبر: 2768801-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 1852=1330-1/1432
سیلاب کی وجہ سے جو سامان بہہ جاتا ہے یا اِدھر اُدھر ہوجاتا ہے، اس کا حکم ”لقطہ“ کا ہی ہے، یعنی اگر وہ معمولی چیز ہے تو اس کے استعمال کی ہرشخص کو اجازت ہے اور اگر وہ قیمتی ہے تو اس کو استعمال نہیں کرسکتا۔
ہاں اگر سامان کو اٹھانے والا غریب ہے اورمصرف زکاة وصدقہ ہے، تو وہ شخص اس سیلاب زدہ سامان کو اپنی ضروریات میں خرچ کرسکتا ہے۔ والحطب في الماء إن لم یکن لہ قیمة یأخذہ، وإن لہ قیمة فہو لقطة (البحر: ۵/۲۵۳) إن کان الملتقط محتاجًا فلہ أن یصرف اللقطة إلی نفسہ بعد التعریف (ہندیہ: ۲/۲۹۱)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
إيك سوال جو إنتهائى تكليف كا جواب بنا هوا هــ ليكر جنابكى خدمت مين حاضر هو رها هون براه كرم جواب عنايت فرما كر مشكرر فرمائين سوال يه كه ميى سعودى عربيه ميى فيميلى كيساتهــ كافر عرصه ســ ره رها هون يهخان كئى سال قبل ميرى إيك عمر رسيده شخص ســ ملاقات هوئى بهر رفته رفته هم بهت قريب هوكئــ إس شخص كى شركه كه رهائش ميى غير مسلمونكى وجه ســ كافى بريشانى تهى غس نــ مجهــ كها كه مين انكو إيك كمره جو ميرى رهائش مين عليحده موجود تها وه رهنــ كيلئــ ديدون مين نــ إنكار كرديا مكر إنهون نــ إبنى تكاليف كا واسطه ديكر اور رو رو كر مجهــ رضامند كرليا اور وه سامان ليكر إس كمره مين رهنــ لكا اور كهانا وغيره بهى هماريــ ساتهـ كهانــ لكا جب يه شخص آيا اسوقت تو كمره كا كرايه طــ نهين هوا تها ليكن كئى ماه كــ بعد إس شخص نــ خود 400 ريال ماهوار ادا كرنا ۔۔۔۔۔؟؟؟
1596 مناظرکیا
کرایہ کی جگہ جس میں ڈپوزٹ ہو وراثت میں شامل کی جاسکتی ہے؟ (۲)خود کے باپ سے پیسہ لے کر کوئی دکان خریدتا
ہے تو کیا اس خریدی ہوئی دکان میں سے باپ کے انتقال کے بعد وراثت جاری ہوگی؟ یا جس
نے خریدا تھا اس کی ذاتی ملکیت ہوگی؟
دکان کے سامنے گاڑی کھڑی کرنا
9165 مناظرحضرت
میں ایک موبائل کی دکان پر کام کرتاہوں۔ تھوڑے دن پہلے ایک آدمی کے پیسے وہاں دکان
پر گر گئے ، کچھ لوگوں نے مجھے وہ پیسے اٹھانے کے لیے کہا او روہ پیسے میں نے اٹھا
لئے اب میں ان پیسوں کی ادائیگی کرنا چاہتا ہوں میں کیسے کروں؟
مفتی صاحب آپ کی
خدمت میں میرا یہ سوال ہے کہ ہمارے آفس میں ایک قانون ہے کہ ساڑھے سات بجے کے بعد
شام کا کھانا اوردوسری سہولیات کا الاؤنس ملتا ہے لیکن بوس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ
دے یا نہ دے۔ تو ایسی صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟(۲)دوسرا یہ کہ
جیسے ہم سب کو کام کر تے کرتے دس بج جائے او رہمارا حاکم ہمیں ڈنر نہ کروائے لیکن
ہم ڈنر کا بل بنا کر اکاؤنٹ آفس میں دے دیں او رڈنر کے پیسے لے کر آپس میں تقسیم
کر لیں تو کیا یہ جائز ہوگا؟ (۳)تیسرا یہ کہ
ہمارے آفس میں گیارہ بجے کے بعد ٹیکسی کا کرایہ ملتا ہے لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتا
ہے کہ ہم لوگ دس بج کر پچاس منٹ پر بھی چلے جاتے ہیں تو پھر ہم لوگ اپنے واوچر میں
گیارہ بجے یا اس سے زیادہ کا وقت لکھ کر ٹیکسی کا کرایہ لے لیتے ہیں تو کیا اس طرح
کرایہ لینا جائز ہو گا؟ اب میں آپ کو اخیر میں صحیح سے اپنا سوال سمجھا دیتا ہوں۔
(۱)دفتر کے قانون کے مطابق کام کیا جائے لیکن
پھر بھی کرایہ او رکھانا نہ ملے تو ایسی صورت حال میں ہم کو کیا کر نا چاہیے؟ (۲)ایسے
کھانے کے پیسہ کا مطالبہ کرنا جس کو کھایا ہی نہ گیا ہو توکیا وہ پیسہ جائز ہوگا؟
(۳)ایسا ٹیکسی کا کرایہ کہ جب ٹیکسی میں سفر
کیا ہی نہ گیا ہو یا گیارہ ہی نہ بجے ہوں تو کیا وہ پیسہ جائز ہوگا؟
میں ایک مکان
خریدنے کی تلاش میں تھا۔ اس کے لیے میں نے مختلف زمین کا کاروبار کرنے والے دلالوں
سے تعاون کے لیے کہا۔ فروری 2008میں ایک بھائی ( عامر) نے مجھ کو گلشن جوہر میں
ایک مکان دکھایا اور اس مکان کے مالک ( یحی) کے ساتھ ایک میٹنگ کا بندوبست کیا۔ اس
میٹنگ میں وہ دلال بھی موجود تھا ، قیمت کی وجہ سے ہمارا سودا فائنل نہیں ہوسکا۔
اس کے بعد اس دلال نے مجھ کو مختلف مکان دکھایا مختلف علاقوں میں جیسے گلشنِ
معمار، گلشن اقبال، سی پی برار سوسائٹی، دھوراجی کالونی وغیرہ اور مختلف مالکوں کے
ساتھ میٹنگ بھی کروائی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نومبر2008میں مجھے شعیب ابن یحی
اس مکان کے مالک جن سے میری میٹنگ فروری 2008میں ہوئی تھی کی طرف سے ایک فون موصول
ہوا اور انھوں نے مکان کے بارے میں میری رائے کے بارے میں پوچھا۔ میں نے کہا بہتر
ہے، میں اس کے گھر گیا سودا کو مکمل کرنے کے لیے، اس میٹنگ کے دوران میں نے اپنی
پیشکش کی لیکن ....
میں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں، اس کے جنرل مینیجر نے اپنی کمپنی الگ کھولی ہے میرے لیے اس میں کام کرنا کیسا ہے؟