• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 23744

    عنوان: میں دہلی یونیورسٹی کا ریٹائرڈ استاذ ہوں، میں ایک معاملہ میں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں جس سے مجھے بہت زیادہ پریشانی ہوئی ہے۔کچھ عرصہ پہلے میں جے پور میں ایک پروپرٹی بیچنا چاہتاتھا اور اپنے ایک قریبی بھروسے مند رشتہ دار کو جو مقامی آدمی تھا، اس کی دیکھ بھال کے لیے کہا، اس نے کام کے لیے ایک دلال کو لگادیا اور پروپرٹی بیچ دی گئی۔خریدنے والے سے آخری قسط لیتے وقت اس نے 50,000/روپئے اپنے پاس رکھ لیے یہ کہتے ہوئے کہ یہ دلال کو دینا ہے، (معاملہ کو ڈیل کرنے میں دو فیصد) جو معمول کے مطابق ایک دلال کی فیس ہوتی ہیں۔بعد میں دلال نے شکایت کی کہ مجھے اپنے کام پر پوری فیس نہیں ملی، اس نے بتایا کہ آپ کے رشتہ دار نے منافع کی رقم کو تین حصوں میں تقسیم کردیا، ایک حصہ اپنے چھوٹے بھائی کو دیا ، دوسرا حصہ اپنے لیے رکھا اور بقیہ حصہ مجھے (دلال) کو دیا۔ دوسری طرف میری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور دلال بھی یہ جانتا ہے کہ میں نے پوری رقم دیدی ہے۔(۱) کیا دلال اور میرے رشتہ دار کے درمیان معاملہ کے حل کرنے میں میرا خاموش رہنا منا سب ہوگا؟ (۲) کیا میری طرف سے کہ یہ خیال کرنا صحیح ہوگا کہ پورے کاروبار میں دھوکا سے کام لیا گیا ہے ؟ چونکہ کمیشن میں کسی طرح کی کٹوتی یا تبدیلی کی بات یا تو مجھ تک پہنچ جانی چاہئے یا پھر اس بارے میں مجھے اطلاع دی جانی چاہئے کہ انصاف کے ساتھ اس کی دوبارہ تقسیم کس طرح کی جائے ؟ (۳) کیا اس طرح سے حاصل شدہ منافع کو جائز آمدنی مانا جائے گا؟ اندرونی خلفشار کو حل کرنے میں آپ کی رہنمائی معاون ثابت ہوگی۔ 

    سوال: میں دہلی یونیورسٹی کا ریٹائرڈ استاذ ہوں، میں ایک معاملہ میں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں جس سے مجھے بہت زیادہ پریشانی ہوئی ہے۔کچھ عرصہ پہلے میں جے پور میں ایک پروپرٹی بیچنا چاہتاتھا اور اپنے ایک قریبی بھروسے مند رشتہ دار کو جو مقامی آدمی تھا، اس کی دیکھ بھال کے لیے کہا، اس نے کام کے لیے ایک دلال کو لگادیا اور پروپرٹی بیچ دی گئی۔خریدنے والے سے آخری قسط لیتے وقت اس نے 50,000/روپئے اپنے پاس رکھ لیے یہ کہتے ہوئے کہ یہ دلال کو دینا ہے، (معاملہ کو ڈیل کرنے میں دو فیصد) جو معمول کے مطابق ایک دلال کی فیس ہوتی ہیں۔بعد میں دلال نے شکایت کی کہ مجھے اپنے کام پر پوری فیس نہیں ملی، اس نے بتایا کہ آپ کے رشتہ دار نے منافع کی رقم کو تین حصوں میں تقسیم کردیا، ایک حصہ اپنے چھوٹے بھائی کو دیا ، دوسرا حصہ اپنے لیے رکھا اور بقیہ حصہ مجھے (دلال) کو دیا۔ دوسری طرف میری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور دلال بھی یہ جانتا ہے کہ میں نے پوری رقم دیدی ہے۔(۱) کیا دلال اور میرے رشتہ دار کے درمیان معاملہ کے حل کرنے میں میرا خاموش رہنا منا سب ہوگا؟ (۲) کیا میری طرف سے کہ یہ خیال کرنا صحیح ہوگا کہ پورے کاروبار میں دھوکا سے کام لیا گیا ہے ؟ چونکہ کمیشن میں کسی طرح کی کٹوتی یا تبدیلی کی بات یا تو مجھ تک پہنچ جانی چاہئے یا پھر اس بارے میں مجھے اطلاع دی جانی چاہئے کہ انصاف کے ساتھ اس کی دوبارہ تقسیم کس طرح کی جائے ؟ (۳) کیا اس طرح سے حاصل شدہ منافع کو جائز آمدنی مانا جائے گا؟ اندرونی خلفشار کو حل کرنے میں آپ کی رہنمائی معاون ثابت ہوگی۔ 

    جواب نمبر: 23744

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(د): 1156=922-8/1431

    (۱) دلال سے معاملہ آپ نے طے کیا تھا یا آپ کے درمیانی رشتہ دار نے؟ اگر انھوں نے طے کیاتھا تو آپ بری الذمہ ہیں۔
    (۲) انھیں (درمیانی رشتہ دار کو) وضاحت کردینی چاہیے تھی کہ خود میں اور میرا چھوٹا بھائی بھی کچھ محنتانہ لیں گے، اب یہ کریں کہ درمیانی رشتہ دار نے جو معاملہ دلال سے طے کیا ہو یا جو اُجرت معروف ہو اس کے مطابق وہ دلال سے معاملہ صاف کرلیں اور خود انھوں نے اور ان کے بھائی نے کچھ محنت دوڑ دھوپ کی ہو تو حق المحنت کے طور پر آپ انھیں کچھ دیدیں یہ آپ کی طرف سے تبرع اورمعاملہ صاف کرنے کی صورت ہوگی ورنہ جب ان کے حق المحنت کی کوئی بات شروع میں طے نہیں ہوئی تھی نہ ہی مکان فروخت کرانا بطور پیشہ ان کا عمل ہے تو ان کا حق المحنت آپ پر واجب نہیں۔
    (۳) ورنہ ان کا دلال کا حق دبا کر رکھ لینا یا بدون آپ سے معاملہ طے کیے از خود رکھ لینا درست نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند