• معاملات >> دیگر معاملات

    سوال نمبر: 22707

    عنوان: اسلام علیکم محترمین و مکرمین مفتیان کرام موضوع: مشترکہ جائیدات میں تقسیم۔ دو بھائی زید و عمر ہیں ان میں زید قریب ۴ سال بڑا ہے۔ تقریباً ۶ سال قبل زید کے کہنے پر مشورہ سے عمر اور اسکی بیوی نے حج مشترکہ کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم سے کیا۔ پورا کاروبار زید کے ہاتھ میں اسکے سارے لین دین اور آمدنی و اخرجات بھی زید کے ہی ہاتھوں ہوتے ہیں۔ زید بھی شادی شدہ ہے اسکے ۴ بچّے ہیں بڑا لڑکا تقریبا ۱۶ سال کا مدرسہ پڑھتا ہے ۔لڑکی ۱۳ سالہ مدرسہ پڑھتی ہے لڑکی ۱۰ سالہ اسکول جاتی ہے لڑکا ۸ سالہ اسکول جاتا ہے۔ عمر کے دو لڑکیاں بڑی ۱۲ سالہ ذہنی و جسمانی معذور اسکول مدرسہ نہیں پڑھ سکتی چھوٹی ۴ سالہ بچوں کے اسکول میں ایک سال قبل داخلہ لیا ہے۔ ہر ایک کے اخراجات مشترکہ کاروبار سے بلا تفریق و حساب پورے کئے جاتے ہیں اب دونوں بھائی علاحیدہ ہونا چاہتے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ عمر اور اسکی بیوی کے اخراجات حج کو کس مد میں لیا جائے ۔کیا تقسیم کے وقت اس پر خرچ ہونے والی رقم کو عمر کا خرچ مان کر اسکو اسکے حصہ سے منہاء کیا جائے زید تقسیم سے قبل حج کرنا چاہتا ہے مع اپنی بیوی کے اس بات کا پتہ جب عمر کو دوسروں کے ذریعے لگا تو اس نے زید کو کہا کہ تم پہلے تقسیم کا عمل پورا کرو پھر اپنے حصے میں آنے والی رقم و ملکیت میں جو چاہو کرو اس وقت مشترکہ ملکیت میں سے حج کرنے میں میری رضامندی نہیں زید کے اس کہنے پر کہ تم نے بھی تو مشترکہ ملکیت حج کیا عمر نے یہ استدلال دیا کہ وہ ہم دونوں کی رضامندی سے تھا اس مرتبہ یہ بات نہیں ہے۔ اور نہ ہی تم نے مجھ سے اس متعلق کوئی مشورہ کیا ہے ۔ مذکورہ بالا مسلہ میں حنفی مسلک کے مطابق شریعی حل عنایت فرمائیں اور یہ بھی کہ زید و عمر کے لئیے اس معاملہ میں مستحسن عمل کیا ہو الگ سے واضع فرمادیں.

    سوال: اسلام علیکم محترمین و مکرمین مفتیان کرام موضوع: مشترکہ جائیدات میں تقسیم۔ دو بھائی زید و عمر ہیں ان میں زید قریب ۴ سال بڑا ہے۔ تقریباً ۶ سال قبل زید کے کہنے پر مشورہ سے عمر اور اسکی بیوی نے حج مشترکہ کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم سے کیا۔ پورا کاروبار زید کے ہاتھ میں اسکے سارے لین دین اور آمدنی و اخرجات بھی زید کے ہی ہاتھوں ہوتے ہیں۔ زید بھی شادی شدہ ہے اسکے ۴ بچّے ہیں بڑا لڑکا تقریبا ۱۶ سال کا مدرسہ پڑھتا ہے ۔لڑکی ۱۳ سالہ مدرسہ پڑھتی ہے لڑکی ۱۰ سالہ اسکول جاتی ہے لڑکا ۸ سالہ اسکول جاتا ہے۔ عمر کے دو لڑکیاں بڑی ۱۲ سالہ ذہنی و جسمانی معذور اسکول مدرسہ نہیں پڑھ سکتی چھوٹی ۴ سالہ بچوں کے اسکول میں ایک سال قبل داخلہ لیا ہے۔ ہر ایک کے اخراجات مشترکہ کاروبار سے بلا تفریق و حساب پورے کئے جاتے ہیں اب دونوں بھائی علاحیدہ ہونا چاہتے ہیں مسئلہ یہ ہے کہ عمر اور اسکی بیوی کے اخراجات حج کو کس مد میں لیا جائے ۔کیا تقسیم کے وقت اس پر خرچ ہونے والی رقم کو عمر کا خرچ مان کر اسکو اسکے حصہ سے منہاء کیا جائے زید تقسیم سے قبل حج کرنا چاہتا ہے مع اپنی بیوی کے اس بات کا پتہ جب عمر کو دوسروں کے ذریعے لگا تو اس نے زید کو کہا کہ تم پہلے تقسیم کا عمل پورا کرو پھر اپنے حصے میں آنے والی رقم و ملکیت میں جو چاہو کرو اس وقت مشترکہ ملکیت میں سے حج کرنے میں میری رضامندی نہیں زید کے اس کہنے پر کہ تم نے بھی تو مشترکہ ملکیت حج کیا عمر نے یہ استدلال دیا کہ وہ ہم دونوں کی رضامندی سے تھا اس مرتبہ یہ بات نہیں ہے۔ اور نہ ہی تم نے مجھ سے اس متعلق کوئی مشورہ کیا ہے ۔ مذکورہ بالا مسلہ میں حنفی مسلک کے مطابق شریعی حل عنایت فرمائیں اور یہ بھی کہ زید و عمر کے لئیے اس معاملہ میں مستحسن عمل کیا ہو الگ سے واضع فرمادیں.

    جواب نمبر: 22707

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب):1093=207tb-6/1431

    معاملات کی صفائی شرعاً مطلوب ہے جیسا کہ میل جول اور باہمی الفت ومحبت مطلوب ہے، مذکورہ بالا صورت میں اگر پہلے سے نفع کی کوئی حد مقرر نہیں تو رفعِ نزاع وتطییبِ قلوب کے لیے مشترک کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع کی تنصیف کردی جائے اور ہرایک بھائی کو نفع کا آدھا حصہ دے دیا جائے اور اب تک مشترک کاروبار سے جو اخراجات ہوئے ان میں طرفین کی جانب سے رضامندی پائی گئی لہٰذا وہ ہرایک کا دوسرے کے لیے تبرع ہے جس کو حصہٴ نفع سے منہا نہیں کیا جائے گا، چنانچہ عمر اور اس کی بیوی کے حج پر ہونے والے اخراجات زید کی جانب سے تبرع ہیں جن کو عمر کے حصہٴ نفع سے منہا نہیں کیا جائے گا، اب موجودہ صورت میں یا تو عمر بھی زید کو مشترک کاروبار سے حج کرنے کی اجازت دے دے اس صورت میں یہ اخراجات عمر کی جانب سے تبرع ہوجائیں گے جن کو زید کے حصہ سے منہا نہیں کیا جائے گا، یا پھر دونوں بھائی پہلے کاروبار کی تقسیم کرلیں اس کے بعد ہرایک اپنے حصہ میں با اختیار ہوگا دوسرے کی رضامندی کی ضرورت نہ ہوگی، حدیث شریف میں ہے کہ کسی کا مال طیبِ نفس کے بغیر دوسرے کے لیے حلال نہیں، لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ․ (مشکاة: ۲۵۵)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند